ستار ساحر
عبد الستار ساحر کا قلمی نام ساحر ہے۔ ان کی پیدائش 9 اگست 1957ء کو شہر کڈپہ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام سید قادر ہے۔ بچپن ہی سے انھیں شاعری کا ذوق تھا۔ انھوں نے شاعری کی نوک وپلک درست کرنے کے لیے ایک محقق و نقاد و شاعر پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے آگے زانوئے ادب تہ کیا۔ عبد الستار ساحر (پروفیسر شعبہ اردو، ایس۔ وی یونیورسٹی، تروپتی) شاعر، نقاد، محقق، مضمون نگار اور خاکہ نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔
ستار ساحرؔ | |
---|---|
پیدائش | 9 اگست 1957ء کڈپہ، آندھرا پردیش، انڈیا |
پیشہ | ادب سے وابستگی، |
وجہِ شہرت | شاعری |
مذہب | اسلام |
بحیثیت رجسٹرار تعنیات
ترمیمحکومت آندھرا پردیش کی کرنول میں قائم کردہ ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کے بانی رجسٹرار کی حیثیت سے 24 اگست، 2016 کو تعنیات ہوئے۔ فی الحال ایس وی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو میں خدمات انجام دے رہے ہیں
تصانیف
ترمیمآئے دن ان کے مضامین اور شعری تخلیقات کئی ایک ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں شاعری میں کماحقہ عبور حاصل ہے۔ نثر کی حسبِ ذیل چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
- دبستانِ گولکنڈے کی شاعری میں ہندوستانی عناصر (1997ء)
- ہندوستانی تہذیبی عناصر: محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں (1988ء)
- تنقیدات (2005ء)
- جنوب ہند میں اردو مرقع نگاری (2009ء)
- میزان (2009ء)
- نقوشِ تنقید (2011ء)
- اکتساب فکر (2012ء)
- فکر و نظر (2014ء)
- نذرستارساحر(2019ء)
ساحر کی شاعری میں جدیدیت
ترمیمڈاکٹر ستار ساحر کی شاعری کی عمر بیس سال سے زیادہ ہے یعنی 1981ء میں آپ نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا اور پروفیسرسلیمان اطہر جاوید سے مشورہ سخن کیا۔ ان کی شاعری میں سلاست، سادگی،شگفتگی اور روانی کی غماز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں کئی ایک پہلو اجاگر ہوتے ہیں جیسے کلاسکیت، ترقی پسندی اور جدیدیت۔ موصوف نے شاعری میں ایک متوازن اور معتدل راہ اختیار کی ہے جدید رجحانات میں طنز کا پہلو اہم رول ادا کرتا ہے موصوف کی شاعری میں لطیف طنز نمایاں طور پر نظر آتا ہے حسن و عشق کے موضوعات کے ساتھ ساتھ تنہائی، یگانگی، خوف، اکیلا پن اور وجودیت جیسے جدید رجحانات کا عکس پایا جاتا ہے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
” | ہے رشک ہی کے قابل یہ فیصلہ ہمارا
غم سے نجات پائیں غم کو گلے لگا کر |
“ |
” | مرے خیال کی دنیا میں یوں وہ آتے ہیں
کہ ہنستے زخم ہیں سناٹے گنگناتے ہیں |
“ |
” | سدا غم میں جو مسکراتا رہا
فقط ایک ساحر ہے دو چار میں |
“ |
قدیم تراکیب و الفاظ کے ساتھ ساتھ جدید اسلوب اور نئے الفاظ کی ترکیب میں ساحر نے بڑی چابکدستی سے کام لیا ہے۔ یہی ان کی شاعری کی عمدگی کا راز ہے۔ شجر امید، شب فراق، ہوس کی نمو، جام نعلین، نفس جاودانی، وحشتوں کا رقص وغیرہ جیسے الفاظ نے ان کی شاعری کے حسن میں اضافہ کیا ہے چند شعر ملاحظہ ہوں:
” | ہم نے سینچا لہو سے برسوں جب
شجر امید پر ثمر آیا |
“ |
” | سرخیاں ہی سرخیاں ہر صفحہ اخبار پر
وحشتوں کا رقص پھر الفاظ میں دیکھا گیا |
“ |
” | کشمکش جدوجہد اک امتحاں ہے زندگی
جوے شہر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی |
“ |
موصوف کے کلام میں جدید رجحانات کا عکس جابجا پایا جاتا ہے آپ ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔