سردار محمد اجمل خان گبول

سردار محمد اجمل خان گبول 1946ء میں قابل خانی خاندان کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ گرامی کا پیشہ کاشت کاری تھا۔ اوّل تا میٹرک تعلیم تحصیل علی پور سے حاصل کی۔ آپ کا خاندان علمی دولت سے مالا مال ہے۔ بچپن ہی سے گبول قبیلہ کے اتحاد و فلاح میں سر گرم رہے۔ آپ کے ناگہانی انتقال سے گبول قبیلہ کو نا قابلِ تلافی نقصان ہوا۔

خاندانی پس منظر

ترمیم

آپ کی ذاتی ڈائریوں سے آپ کی سیاسی اور ذاتی زندگی کے متعلق چند سطور ملاحظہ ہوں:

’’تاریخ پیدائش 1946 ء۔ والدین کی دوسری اولاد۔ ہمارا تعلق گبول بلوچ خاندان سے ہے۔ ہمارے خاندان کے کسی بزرگ نے ضلع ڈیرہ غازی خان سے ہجرت کی۔ پہلے تحصیل علی پور کے نواحی موضع بیٹ نبی شاہ پھر وہاں سے نقل مکانی کر کے گھلواں دوم سکونت اختیار کی۔ تحصیل علی پور کے نواحی مواضعات متذکرہ بالا میں ہمارے خاندان کے افراد سکونت پزیر ہیں اور 1986ء تک ایک سو گھر آباد ہیں جن کا نمبرداری کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق ہے۔

ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول چاہ حسن والاسے حاصل کی۔ اپنے ساتھی طالب علموں میں سے ہمیشہ اوّل آتا تھا۔ اَساتذہ کرام اور خاندان کے بزرگوں کے سامنے نہایت ہونہار اور فرماں بردار تھا۔ پرائمری کے اَساتذہ کرام میں ماسٹر امیر بخش صاحب گبول، ماسٹرامیر بخش صاحب خیر پوری، ماسٹر شاہ نواز صاحب بڈانی، ماسٹر عبد الرحیم صاحب قریشی، ملازم حسین صاحب علی پوری قابلِ ذکر ہیں۔ میرے اَساتذہ کرام میں سے امیر بخش صاحب گبول نے قرآن پاک کا سبق میرے نانا واحد بخش خان گبول سے حاصل کیا جو میرے دادا الٰہی بخش خان گبول کے بڑے بھائی اور فرشتہ صفت انسان تھے۔ نہایت نیک، خدا ترس، غریب پرور اور پرہیز گار تھے۔ اُن کا انتقال 1974ء میں ہوا۔ پرائمری زمانۂ طالب علمی میں اپنے بزرگوں میں سے خاص طور پر دادا سردار فاضل خان گبول نمبردار موضع گھلواں، جناب چچا سردار قادر بخش خان گبول نمبردار موضع بیٹ نبی شاہ، دادا سردار کریم بخش خان گبول نمبردار، کریم بخش خان صاب گبول جو محمد طارق خان گبول کے والد تھے اُن کے پُر اَنوار چہرے دیکھے۔ نانا رمضے خان گبول، دادا پیر بخش خان گبول پتیانوالہ، دادا خان محمد خان گبول نمبر دار، عبد الرحمٰن خان گبول، نبی بخش خان ولد دین محمد خان گبول، محمد شریف صاحب اللہ والے، دین محمد خان نلکا گبولاں پنجند اور دیگر بزرگوں کی زیارت نصیب ہوئی۔ دادا الٰہی بخش خان گبول کا بھرپورتعاون میری ابتدائی زندگی سے آرمی میں داخلے تک مسلسل رہا۔ میری غیر موجودگی میں دادا صاحب کا انتقال ہوا اور اُن کی وفات کے ہفتہ بعد دادی صاحبہ کا انتقال ہمارے گھر کے ماحول اور آخری شمع بجھ جانے کے بعد گھریلو زندگی پر کافی اَثر چھوڑ گیا۔

پرائمری سے فارغ ہو کر گورنمنٹ ہائی اسکول علی پور داخلہ لیا اور نویں جماعت تک اوّل آتا رہا۔ اچانک حالات نے پلٹا کھایا اور تعلیم کو خیر باد کہہ دیاجس کا میرے بجائے میرے اَساتذہ کرام کو دُکھ پہنچا۔ ’’چوکی گبول‘‘1966ء میں گیا۔ محمد شفیع ندیم گبول، اللہ ڈیوایا خان، محمد رمضان خان پروانہ، خادم حسین، غوث بخش خان اور جام غلام رسول میرے پہلے دوست ہیں۔ رمضان خان کو پروانہ کا لقب میں نے دیا۔ میں سو جاتا تھا اور رمضان خان تمام رات دیوار پر بیٹھ کے میرے جاگنے کا انتظار کرتا۔ جس پر میں نے پروانہ کا لقب دیا۔

1969ء میں میری شادی کر دی گئی۔ میرے بچوں کے ساتھ دادا دادی کی شفقت بے پناہ ہے اور میری غیر موجودگی کا احساس تک نہیں ہونے دیتے۔ اِس میں بھائی اکرم خان کا بھی کافی حد تک پیار ہے۔ اپنی بستی کے تمام گھرانوں کو ایک دیکھنا پسند کرتا ہوں۔ اُن کے مابین تنازعوں سے دل دُکھتا ہے۔

سیاسی کردار

ترمیم

سردار رسول بخش خان گبول کی شفقت و سیاسی روش اپنانے کا شرف اُن سے حاصل ہوا۔ اُن کا پیار اولاد کے برابر تھا۔ سردار اللہ ڈیوایا خان لاشاری کے دادا کریم بخش خان لاشاری کو میں نے بڑھاپے میں دیکھا۔ واحد بخش خان جو رسول بخش خان کے والد تھے اُن کو بھی بڑھاپے میں دیکھا۔ سردار بڈھے خان گبول (ڈینہ والا کھوہ) کا زمانہ دیکھا۔ چچا واحد بخش خان گبول ولد نبی بخش خان، چچا شیر خان ولد غازی خان کو اولاد سمیت دیکھا۔ چچا شیر خان اور واحد بخش خان ہنس مُکھ اور میرے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آتے تھے۔ اُن کی وفات پر دُکھ ہوا۔

1969ء میں ’’اتحادِ جواں مرداں‘‘ ایک انجمن ندیم صاحب، حافظ منظور صاحب، اللہ ڈیوایا خان وغیر ہ کے تعاون و رائے سے تشکیل دی گئی۔ 1970ء میں دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی تحصیل علی پور کا پہلا دفتر چوکی گبول کھولا گیا اور اتحادِ جواں مرداں اُس میں ضم کر دی گئی۔

1972ء میں پیپلز پارٹی کے بر سرِاِقتدار آنے اور بھٹو صاحب کے پہلے جلسۂ لاہور بمقام قذافی اسٹیڈیم شمولیت کے فوراً بعد آرمی میں چلا گیا۔ کیمبل پور (اٹک) ٹریننگ کی اور سیالکوٹ، ،درگئی تعینات رہا۔ پانچ سال آرمی میں رہا اور بھٹو صاحب کی گرفتاری والے دن فوج کو خیر باد کہا۔ اِسی دور میں میری زندگی میں زوال شروع ہوا۔ سیاسی زندگی اپنا کر اپنے لیے کچھ نہ کر سکا۔ سوسائیٹیز(Societies) بہتر نہ ملنے کے سبب ترقی نہ کر سکا۔

فوج سے واپسی پر سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چوکی گبول کی بجلی، ٹیکسز، بوائزسکول، گرلزسکول اور اپنی مدد آپ کے تحت پکی سڑک قابلِ ذکر ہیں۔ اِس میں ندیم صاحب، حافظ غلام شبیر صاحب، شریف صاحب، غلام نبی صاحب و دیگر دوستوں کا مکمل تعاون رہا۔ ستمبر1977ء سے 1980ء تک حافظ غلام سرور صاحب بہترین دوست ثابت ہوئے۔ اُن کے والد محمد بخش خان کا میرے ساتھ دِلی اُنس تھا۔ سردار اللہ یار خان سے مراسم 1972ء میں ہوئے اور1978ء سے 1985ء تک ایک دوسرے کے جاں نثار دوست تھے۔

1985ء کے قومی و صوبائی الیکشن میں چوہدری شاہ محمد و رائے شریف صاحب نے میری عزت کی اور مکمل ساتھ دیا۔ چچا رحیم بخش خان(چوکی گبول) نہایت ہی مخلص ثابت ہوئے اور اُن تمام نے سردار عاشق خان گوپانگ کے الیکشن میں میرے ساتھ تعاون کیا۔ مگر چچا رحیم بخش خان (چُھٹے والا) نے، جن کی خاطر میں نے سردار حضور بخش خان گبول اور شاہ محمد صاحب کے ساتھ مخالفت کی، الیکشن میں میری ہی مخالفت کی تاہم اِس کوشش میں کامیاب نہ ہو ئے۔

1985ء میں پاکستان پیپلز پارٹی، علی پور کا جنرل سیکریٹری نامزد ہوا۔ 10 اپریل 1986ء کو بے نظیر بھٹو لندن سے پاکستان واپس آئیں۔ لاہور جلسے میں شرکت کی۔ 14 اپریل کو گڑھی خدا بخش پہنچا۔ پارٹی کے بعض معاملات اور بیانات سے دل کو دُکھ پہنچا اور متحرک سیاسی زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔‘‘

سردار رسول بخش خان گبول کو خراجِ عقیدت

ترمیم

اِسی طرح گبول تنظیم کے بانی ’’سردار رسول بخش خان گبول‘‘کی وفات پر لکھی گئی چندسطریں ملاحظہ ہوں:

’’آج صبح کا سورج نکلتے ہی ہمیں ہمارے راہنما سے جدائی کا پیغام دے گیا۔ آج ہماری برادری کا سوگوار لمحہ صدیوں میں بدل گیا۔ ہمارے قبیلے کی تاریخ ساز شخصیت ہم سے جُدا ہو گئی۔ صدیوں تک آنے والی نسل بھی اِس تاریخی شخصیت کے کارناموں پر فخر کرے گی۔ ہمارے دِلوں میں اُن کی یاد ماتم بن کر اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن کر اُبھرتی رہے گی۔ آج سردار رسول بخش خان گبول صدر و بانی ’’گبول تنظیم‘‘ نہ بِکنے والا نہ جُھکنے والا ستارہ ہم سے رُوٹھ گیا۔ اللہ انھیں اَپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین‘‘

’’آج ہمارے قبیلے کے آرزؤں کی قُل خوانی ہو گی۔ ہمارے قبیلے کو عزّت و ناموس سے سرفراز کرنے والا ستارہ ہمارے ماتم پر خُوش ہو گا۔ زندہ کو بھلا دینے اور بچھڑ جانے والے کو یاد کرنے والی قوم کا آج دوبارہ زخم تازہ ہو گا۔ آج سردار صاحب کی قل خوانی تھی، کافی لوگ تھے۔ یہ لوگوں کا جمِّ غَفیر خان صاحب پر احسان نہیں بلکہ اُن کا قرض تھا۔ وہ ہر دکھ سکھ میں حاضری دیتے تھے۔ یہ صرف اُن کے اِخلاق و کردار کا عملی نمونہ تھا کہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح لوگ پہنچ رہے تھے‘‘

سردار اجمل خان کی گبول قبیلے کے لیے خدمات آدھی صدی پر محیط ہیں جنھیں خاص طور پر تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ پاکستان گبول بلوچ ویلفیئر ایسوسی ایشن( پگوا)کے بانی رُکن ہونے کے علاوہ تنظیم سازی اور گبول قبیلہ کی بین الصّوبائی رابطہ مُہم میں آپ کا کلیدی کردار تھا۔[1] آپ کی وفات سے گبول قبیلہ ایک جہاں دیدہ سربراہ جبکہ آپ کا خاندان کڑی دھوپ میں ایک گھنے اور سایہ دار درخت سے محروم ہو گیا۔ تحصیل علی پور کی معروف سیاسی شخصیت ڈاکٹر روشن علی گھلو نے آپ کو کنگ میکر (King Maker) کا خطاب دیا۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. گبول قبیيلي جو تاريخي جائزو (2011) محقق: عبد الحميد گبول۔
  2. گبول قبیلہ کی نمایاں شخصیات صفحہ 354 ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور(2014)۔

دیگر ماخذ

ترمیم
  • مہماتِ بلوچستان، ضمیمہ اول از: کامل القادری ناشر: قلات پبلشرز کوئٹہ
  • بلوچ تاریخ کے آئینے میں از: مظہر علی خان لاشاری ناشر: علم و عرفان پبلشرز لاہور۔
  • پنجاب کی ذاتیں از: ڈینزل ابسٹن ترجمہ: یاسر جواد ناشر: بک ہوم، 26- مزنگ روڈ لاہور۔

بیرونی روابط

ترمیم