تحصیل علی پور ضلع مظفر گڑھ ، (پنجاب) ، پاکستان کی چار تحصیلوں میں سے ایک تحصیل ہے۔ اس تحصیل کا صدر مقام علی پور شہر ہے۔

یونین کونسلیں ترمیم

اس میں 20 یونین کونسلیں ہیں۔ جن کی تفصیل مدرجہ ذیل ہے

1- خیرپور سادات 2- فتح پور جنوبی 3 سیت پور 4 کندائی 5 علی پور میرانی 6 علی پور اربن 7 گھلواں 8 بندے شاہ 9 على والی 10 بیٹ ملاں والی 11 باز والا 12 لتی 13 مراد پور جنوبی 14 خانگڑھ دوئمہ 15 لنگر واہ 16 مسن کوٹ 17 سلطان پور 18 گبرآرائیں 19 ڈمر والا جنوبی 20 یاکیوالی.

ذاتیں ترمیم

یہ تحصیل بہت سی قبائلی برادری پر مشتعمل ہے اور بڑے بڑے قبیلے آباد ہیں قابل ذکر آرائیں سید، جٹ، راجپوت بلوچ ہیں۔

ملحقہ علاقے ترمیم

خیرپورسادات,سیت پور خانگڑھ دوئمہ, سلطان پور,گبرآرائیں,جھگی والہ , پرمٹ چوک ,شہر سلطان اور بہت سے چھوٹے پر مشتمل ہیں

پنجاب کی سب سے زیادہ پرانے تحصيل ہونے کے باوجود پيداوار کا کافی حصہ اس تحصيل سے ملکی پيداوار میں شامل ہوتا ہے۔ 90 کی دہائی تک تحصیل جتوئی علی پور کا حصہ تھی ۔ تاہم ترقی کے اعتبار ابھی باقی تحصیلوں سے پیچھے اور سیاسی میدان میں سب سے آگے ہے۔ متعدد وفاقی و صوبائی منسٹر اس تحصیل سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ مگر ترقی ناپید ہے

تاریخی تذکرہ ترمیم

علی پور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے ایک تاریخی قصبہ" سیت پور" کا حصہ ہے۔ ماضی میں یہ ایک ریاست تھی. اس کی سرحدیں سندھ میں شکار پور سے ملتی تھیں۔ سیت پور، علی پور سے جنوب میں 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیت پور زرخیزی کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ سیت پور کی سبزیاں بہت مشہور ہیں۔ سیت پور جو مختلف ادوار میں حکومت کا مرکز رہا ہے سیتارانی کے نام پر آباد ہوا تھا اس کا شمار قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے اس کا ذکر ہندؤوں کی مذہبی کتاب رگ وید میں ملتا ہے جس کے مطابق آریائی قوم جن دیوتاؤں کو پوجتے تھے انہی کے ناموں سے شہروں کو منسوب کر دیا جاتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق بارہویں صدی میں یہاں کے ہندو راجا جے پال کی بیٹی سیتا رانیکے نام پر سیت پور کا نام رکھا گیا۔ جے پال کی دوسری بیٹی اوچھا رانی کے نام پر اوچ شریف کا نام رکھا گیا بعد میں محمد بن قاسم نے یہ شہر فتح کیا اور مسلمانوں کے آنے پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی اور طاہر بادشاہ نے بادشاہی مسجد بنوائی جو اج تک آباد ہے اور پوری شان شوکت سے اپنی تاریخی طرز تعمیر پر قائم ہے ساتھ ہی طاہر بادشاہ کا مقبرہ ہے۔اس کا شمار ملتان کے گورنر بہلول لودھی کے چچا اسلام خان نے ان علاقوں پر حکمرانی کی اس نے سیت پور کو اپنا دار الخلافہ بنایا ڈیرہ غازی خان, مظفر گڑھ, کوہ سلیمان کا مشرقی حصہ اور سندھ کے شمالی علاقے اس زیر نگین تھے۔ 1816ء میں رنجیت سنگھ نے اس ریاست کے بچے کھچے علاقوں پر قبضہ کر کے اس کے عروج کو تاراج کیا بلکہ اس کی ساری شان و شوکت چھین کر اسے معمولی قصبہ بنا دیا۔

علی پور شہر 1818ء سے 1848ء تک سکھ عملداری میں رہا۔ 1849ء عیسوی میں یہ شہر انگریزوں کے زیر تسلط آ گیا۔ 1869ء میں علی پورکو ٹائون کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ 1870ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول کا قیام کیا گیا۔ منٹو اور مارلے اصلاحات 1909ء کے بعد 1919ء میں جیل خانہ تعمیر کیا گیا تھا۔ پولیس اسٹیشن 1928ء میں قائم کیا گیا۔ ڈاکٹر مول چاند پہلے ایم . بی . بی ایس ڈاکٹر تھے۔ سول تحصیل ہسپتال قائم کیا گیا اور ڈاکٹر جمال خان بھٹھ کو پہلے سول سرجن تھے.