سرفراز شاہ قتل واقعہ، جون 2011ء
8 جون 2011ء کو کراچی میں گشتی محافظ کے چند سپاہیوں نے ایک 18 سالہ شہری سرفراز شاہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ قتل کے وقت یہ نوجوان اکیلا اور نہتا تھا اور پوری طرح 6 سپاہیوں کی گرفت میں تھا۔ انھیں اس سے کسی قسم کے جسمانی نقصان کا خطرہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود نوجون کے گرفت میں آتے ہی ایک سپاہی نے اپنے ساتھی کو گولی چلانے کو کہا۔ یہ سن کر نوجوان ان سے جان بخشی کی فریاد کرنے لگا تاہم اس کا پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جب دو تین بار کہنے پر سپاہی نے گولی نہیں چلائی تو اس سپاہی نے دوسرے سپاہی کو ایک تھپڑ لگایا جس پر دوسرے سپاہی نے دو گولیاں چلائیں۔ گولیاں چلانے کے بعد شدید زخمی نوجوان اپنی ماں کو یاد کرتا رہا اور سے اسے ہسپتال پہنچانے کی فریاد کرتا رہا لیکن تمام سپاہی پرسکون رہے اور اس کے مرنے کا انتظار کرتے رہے۔ نوجوان کو قریب المرگ یا مردہ حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا۔ ابتدائی رپورٹ میں سندھ پولیس اور گشتی محافظوں نے دعوی کیا کہ نوجون ڈکیتی کی واردات کے دوران مقابلے کے نتیجے میں مارا گیا۔
اس واقعہ کو ایک صحافی نے محمولی عکاسہ پر عکس کر کے محفوظ کر لیا جس سے اس واقعہ کو عالمی شہرت حاصل ہوئی اور پاکستان میں سخت رد عمل ہوا۔[1] چار سپاہیوں کو اقدام قتل پر گرفتار کر لیا گیا۔[2] وزیر اعظم گیلانی نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا۔ منصف اعظم افتخار چودھری نے کراچی میں گشتیمحافظ کے سربراہ کو ہٹانے کا حکم دیا تاکہ واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جا سکیں۔[3] گشتیمحافظ کے ابتدائی بیان کے مطابق مقتول چوری مقدمہ میں مطلوب تھا۔ تاہم چند گھنٹوں کے بعد آنے والی منظرہ نے ثابت کر دیا کہ حکام نے عوام سے جھوٹ بولا اور اپنے کارندوں کی کارستانی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔
مقدمہ اور سزا
ترمیماگست 2011ء میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ایک قاتل سپاہی کو سزائے موت سنائی اور دوسرے چھ کو عمر قید کی سزا دی۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Rangers' action: call for justice"۔ ڈان۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2011
- ↑ "رینجرز مقدمہ انسدادِ دہشتگردی عدالت میں"۔ بی بی سی موقع۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2011
- ↑ "SC orders removal of Sindh Rangers chief, IG police"۔ ڈان۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2011
- ↑ "سرفراز شاہ کیس: رینجرز کو موت اور عمر قید کی سزائیں"۔ بی بی سی موقع۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2011