[1]

سرکار پٹی کے نام سے تقریباً 300 سال سے محکمہ اسلام پور، ضلع اتر دیناج پور (مغربی بنگال) کے تحت آباد تاریخی گاؤں "گنجریا" میں مہذب اور خاندانی لوگوں کا ایک محلہ واقع ہے جو ابھی تقریباً سات مشترکہ خاندانوں پر مشتمل ہے جو دراصل شریف نسل کے زمینداروں کا گھرانہ ہے۔ یہ سارے خاندان ایک ہی شخص کی نسل سے ہیں جس کی وجہ سے یہ تمام خاندان والے آپس میں خونی رشتے رکھتے ہیں.

تاریخ

ترمیم

بتایا جاتا ہے کہ نواب سراج الدولہ کے دو میجر جنرل پلاسی کی جنگ 1757ء میں شکست کے بعد بھاگ کر اس جگہ آ گئے تھے اور اس وقت اس جگہ جنگلات ہی جنگلات تھے۔ ان دونوں میجر جنرل کی گرفتاری پر اس وقت انگلش حکومت نے پانچ سو روپے کا انعام رکھا تھا۔ لیکن ان دونوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے نام بدل کر اور فوجی رنگ ڈھنگ چھوڑ کر کے الگ بھیس میں خفیہ طریقے سے اس جگہ کو آباد کیا اور گنجریا نامی ایک تاریخی اور منظم گاؤں بسایا. ایک جنرل کی اولاد سے جو خاندان آباد ہوا اس کا نام "بڑا سرکار پٹی" رکھا گیا اور دوسرے جنرل (چھوٹے) کی اولاد کے خاندان کا نام "سرکار پٹی" پڑا. یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ دونوں جنرل آپس میں سگے بھائی تھے اور بہت جری، غیرت مند اور بہادر تھے۔ یہ اصلاً کہاں کے تھے یہ کسی کو نہیں معلوم، البتہ ان کی اولادیں خود کو شیخ صدیقی کہتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں بھی نسلی طور پر شیخ تھے، پٹھان، انصاری وغیرہ نہیں.

اس حوالے سے ایک تاریخ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ مغلیہ عہد میں نیپال کے راستے سے بعض حملہ آور داخل ہوکر ہندوستان کے چند علاقوں پر قابض ہو گئے۔ دہلی کے بادشاہ (اس وقت کون بادشاہ دہلی میں تخت نشین تھا، یہ نہیں معلوم ہو سکا) کو جب اس کی خبر لگی تو بڑے پریشان ہوئے اور چار جنرلوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ ان بیرونی حملہ آوروں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا. ان چاروں جنرلوں نے فوجوں کی ایک ایک ٹکڑی لے کر ان حملہ آوروں سے ان ان علاقوں میں جا کر جہاں ان سبھوں نے پڑاؤ کیا تھا جم کر جنگ کی اور انھیں نیپال ہی کے راستے ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کیا. دہلی کے بادشاہ تک جب یہ خبر پہنچی تو بہت خوش ہوئے اور جن علاقوں کو ان جنرلوں نے فتح کیا تھا وہ علاقے جاگیر کے طور پر ان کے حوالے کردیے. چنانچہ گنجریا کا علاقہ ایک جنرل کے حوالے کیا، مہین گاؤں[مردہ ربط] کا علاقہ ایک کے حوالے، گوا گاؤں کا علاقہ ایک کو دیا تو بوڑ گاؤں کا علاقہ (جو ابھی بنگلہ دیش میں واقع ہے) ایک جنرل کو بطور جاگیر سونپا.

اب ان چار جنرلوں کے آپس میں خونی رشتے تھے یا نہیں یہ نہیں معلوم، لیکن اگر یہ تاریخ صحیح ہے تو اس طور پر ان چاروں علاقوں میں تاریخی تعلقات پائے جاتے ہیں۔

بعد میں ان چاروں جنرلوں نے ان علاقوں کو خوب آباد کیا اور ہر جگہ نہایت ہی منظم آبادی بسائی اور عظیم رقبے پر مشتمل بڑی وسیع زمینداری قائم کی.

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

گنجریا، اسلام پور، اتر دیناج پور