سری لنکا میں خواتین (انگریزی: Women in Sri Lanka) کم تر نمائندگی رکھتی ہیں، حالاں کہ اس ملک کی تاریخ میں صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کے عہدوں پر بھی خواتین کا قبضہ رہا ہے۔ تناسب کے لحاظ سے سری لنکا میں خواتین جنوبی ایشیائی ممالک میں کم تر نمائندگی رکھتی ہیں۔ یہ صورت حال سیاسی اور عوامی فیصلہ سازی، دونوں محاذوں پر دیکھی گئی ہے۔ ملک کے سری لنکا کے پارلیمان میں 1930ء کے دہے سے خواتین کی نمائندگی کبھی بھی 6 فی صد سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ 2015ء میں اختتام پزیر عام انتخابات 5.8 فی سد سے کم خواتین منتخب ہوئیں تھیں۔ بلدیہ اور مقامی حکومت کی سطح پر یہ نمائندگی اور بھی کم رہی ہے، 2008ء2012ء کے دور میں اس کی شرح دو فی صد رہی ہے۔ دنیا کے 187 ممالک میں انسانی ترقیاتی اشاریہ میں سری لنکا کو 97 مقام حاصل ہے اور اس کی قدر 0.691 ہے۔ تاہم جنسی عدم مساوات کے اشاریے اس کا مقام 74 ہے، جو کئی ممالک سے نسبتًا بہتر ہے۔[1]

کام کی جگہ پر خواتین کا گھٹتا تناسب ترمیم

عالمی بینک کی 2018ء میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ملازمتوں اور کام کے مقامات پر خواتین کی حصے داری محض 36.6 فی صد ہے، جو کافی کم ہے۔ اس تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی عورت کے گھر پر اگر کوئی بچہ ہو تو اس کے کہیں پر بر سر خدمت ہونے کا امکان مزید 7.4 فی صد کم ہو جاتا ہے۔[2]

خواتین کے برقع پہننے پر پابندی ترمیم

سری لنکا 2019ء کے ایسٹر کے موقع پر کیے جانے والے دھماکوں کے پیش نظر وہاں خواتین کے برقع پہننے پر پابندی لگا دی گئی۔ ملک کے صدر مائتری پالا سری سینا نے ہنگامی قوانین کے تحت خواتین کے برقع پہننے پر پابندی عائد کی۔ یہ حکم نامہ ان خودکش حملوں کے لگ بھگ ایک ہفتہ بعد کیا گیا ہے جس میں گرجاگھروں اور ہوٹلوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔عہدے داروں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے سیکورٹی فورسز کو لوگوں کی شناخت میں مدد مقصود ہے۔ تاہم یہ پابندی بعد میں نہیں ہٹائی گئی۔[3] یہ باوجود اس کے کیا گیا ہء کہ سری لنکا کے وہی صدر نے بعد میں ملک میں ہوئے بم دھماکوں کے لیے منشیات (ڈرگس) کے مافیا کو ذمے دار قرار دیا تھا۔[4] اس پابندی سے صرف ملک کی مسلمان آبادی کے قدامت پسند طبقے کی پردہ دار خواتین اور غیر ملکی حجابی سیاح متاثر ہوتے ہیں۔

مزید دیکھیے ترمیم

مزید پڑھیے ترمیم

  • Vidarshani Nadeesha Perera-Desilva (جنوری 2015)۔ "Psychological counselling for women garment factory workers of Sri Lanka"۔ Asian Journal of Women's Studies۔ 21 (1): 65–76۔ doi:10.1080/12259276.2015.1029231 

حوالہ جات ترمیم