سفر بن عبد الرحمان الحوالی ایک سعودی اسلامی عالم ہیں جو مکہ مکرمہ میں رہائش پزیر ہیں۔ وہ 1991ء میں تحریک احساس کے راہنما کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں نے امریکی فوج کی جزیرہ نما عرب میں موجودگی کی مخالفت کی۔

حالات زندگی

ترمیم

1986ء میں سفر الحوالی نے اسلامی عقائد میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ام القراء یونیورسٹی، مکہ سے حاصل کی۔ 1990ء کے دوران وہ کچھ عرصہ حکومت پر تنقیدی خطبات اور حکومت کے خاتمے کی تحریک کے لیے عسکری گروہوں کو دی جانے والی بیانات کی کیسٹوں کے باعث سعودی حکومت کی حراست میں رہے۔ کہا جاتا ہے کہ مبلغ سلمان العودہ اور سفر الحوالی سعودی عرب میں ایک سلفی تحریک بنام تحریک احساس کے راہنما ہیں۔[1]

1993ء میں سب سے پہلے حکومت مخالف گروہ کی جانب سے قائم ہونے والی شرعی حقوق کے لیے دفاعی کمیٹی نامی تنظیم کے راہنماوں میں سے ایک سفر الحوالی بھی ہیں۔ اس تنظیم نے شاہی حکومت اور بزرگ علما پر کھلے عام اعتراض کیا کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہے۔۔[2]

ستمبر 1994ء میں کمیٹی کے دو راہنما سفر الحوالی اور سلمان العودہ اپنے بہت سے پیروکاروں کے ساتھ قاسم کے علاقہ کے شہر بریاد میں گرفتار کر لیے گئے۔ شیخ عبد العزیز بن باز نے اس پر یہ فتویٰ بھی شائع کیا کہ جب تک العودہ اور الحوالی اپنے اس فعل سے رجوع نہیں کر لیتے، ان کے اجتماعات، تقاریر اور ریکارڈنگ پر پابندی رہے گی۔ 1999ء میں سفر الحوالی اور ان کے ساتھ گرفتار دوسرے دو علما کو بی کر دیا گیا۔[3] اس کے بعد سے الحوالی نے سلمان العودہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔

نظریات

ترمیم

مجاہد اسامہ بن لادن، مبلغ احساس سلمان العودہ اور دوسرے بہت سے سعودیوں کی طرح الحوالی بھی جزیرہ نما عرب میں امریکی فوجی دستوں کی موجودگی کے مخالف ہیں۔ 1991ء میں الحوالی نے ایک خطاب کا آغاز کچھ اس طرح کیا: "خلیجی ریاستوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مسلمانوں اور عربوں کو مغلوب رکھنے کے بڑے مغربی منصوبہ کا حصہ ہے"۔ کہا جاتا ہے کہ بن لادن عموماً الحوالی اور العودہ کے اقتسابات کوریاست ہائے متحدہ امریکا کے خلاف اپنے یبانات کی حمایت میں بطور حوالہ استعمال کرتا تھا۔[4] تاہم اسامہ بن لادن کے حوالے سے سفر الحوالی کو بہت سے اعتراضات ہیں جس میں سے ایک ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کے حوالے سے ہے جو انھوں نے البیان ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں دیا۔https://www.youtube.com/watch?v=9_1NVDKUJWc

حوالہ جات

ترمیم
  1. Suicide Bombers in Iraq By Mohammed M. Hafez
  2. Andrzej Kapiszewski (2006)۔ "Saudi Arabia: Steps Toward Democratization or Reconfiguration of Authoritarianism?"۔ Journal of Asian and African Studies۔ 41 (5-6): 459–482۔ doi:10.1177/0021909606067407۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2012 
  3. Mansoor Jassem Alshamsi (2011)۔ Islam and Political Reform in Saudi Arabia: The Quest for Political Change and Reform۔ New York: Routledge۔ صفحہ: 132 
  4. Holy War, Inc. By Peter L Bergen, Rachel Klayman, C-SPAN