سلطان محمد شاہ شرقی (وفات: 1458ء) جونپور سلطنت کا پانچواں حکمران تھا جس نے محض پانچ مہینے تک یعنی 1457ء سے 1458ء تک حکمرانی کی۔

سلطان محمد شاہ شرقی
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 1458ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان سلطنت جونپور   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1457  – 1458 

سوانح

ترمیم

تخت نشینی

ترمیم

سلطان محمود شاہ شرقی کی میدانِ جنگ میں ناگہانی وفات کے بعد 1457ء میں اُس کا فرزند شاہزادہ بھیکن سلطان محمد شاہ کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اُس کا جشنِ تاج پوشی بھی خاندانی روایات کے مطابق بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا۔ [1] [2]

شخصیت

ترمیم

سلطان محمد شاہ قوی ہیکل نوجوان اور شیر صفت بہادر تھا۔ فن سپاہ گری‘ تیر اندازی‘ شمشیر زنی اور گھڑسواری میں بے مثال تھا اور لڑائی میں غنیم پر شیر کی طرح جھپٹتا تھا۔ اپنے دوسرے بھائیوں کے مقابلہ میں وہ وقت و دبدبہ میں کہیں زیادہ تھا مگر ظالم طبع اور سخت مزاج تھا۔ حکومت کے طور طریقوں سے بالکل ناواقف تھا۔[3]

عہد حکومت

ترمیم

سلطان محمد شاہ کے ظالم طبع مزاج کے سبب سے اُس کے اُمراء اور وزراء اُسے ہرگز پسند نہیں کرتے تھے۔ بنا بر اِیں اُسے اُن کی طرف سے یہ خطرہ لاحق تھا کہ وہ اُسے تخت سے محروم کرکے اُس کے بھائی شہزادہ حسین خان کو تخت پر بٹھا دیں گے۔اِس لیے باپ کی وفات کے بعد جب وہ سلطان دہلی بہلول لودھی سے صلح کرکے جونپور پہنچا تو اُس نے اپنے دونوں بھائیوں شہزادہ حسین خان اور شہزادہ قطب خاں کو قید کر دیا۔اُس کے اِس فعل کی وجہ سے اُس کے کئی وفادار اُمراء بھی اُس سے باغی ہو گئے اور اُن میں سے کئی ایک کو اُس نے قتل بھی کروا دیا[4]۔اِن وجوہات کی بنا پر ہر خاص و عام پر اُس کے ظلم و ستم کا خوف طاری رہنے لگا۔اُدھر بہلول لودھی اُس صلح نامہ کے بعد جب دہلی کے قریب پہنچا تو اُس کی زوجہ شمس خاتون کا اُسے پیغام ملا کہ: ’’ میرا بھائی قطب خاں لودھی جب تک شرقیوں کی قید میں ہے، تم پر کھانا پینا اور سونا حرام ہے‘‘۔بہلول لودھی نے یہ الفاظ سنتے ہی بدلہ لینے کی ٹھان لی اور فوجیں لے کر جونپور کی طرف بڑھا اور منزلیں مارتا ہوا سرسوتی پہنچ گیا۔ سلطان محمد شاہ بھی اِس خبر کو سنتے ہی اپنی فوجیں لے کر مقابلہ کے لیے نکل آیا۔ لیکن جب فوجوں میں مٹھ بھیڑ ہوئی تو شرقی فوجیں ہمت ہار بیٹھیں۔[5]

اِس صورت حال سے سلطان محمد شاہ کی بڑی دل شکنی ہوئی اور اُس نے اِس ناکامی کا ذمہ دار اپنے بھائیوں کی بے مروتی اور اُمراء کی ناچاقی کو ٹھہرایا۔ چنانچہ وہ خود تو بہلول لودھی کے مقابلہ پر ڈٹا رہا مگر جونپور کے کوتوال کو حکم بھجوایا کہ تخت کے دونوں دعویداروں یعنی شہزادہ حسن خان اور شہزادہ قطب خاں کا سر قلم کر دیا جائے۔ یہ خبر اُس کی والدہ کو بھی پہنچ گئی اور وہ اِس حکم کی تعمیل میں حائل ہوگئیں۔ سلطان محمد شاہ کو جب یہ پتہ چلا تو اُس نے والدہ کو پیغام بھیجا کہ وہ خود اُسے آکر ملیں تاکہ اُن کی رضاء مندی سے سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اِس پیغام کے ملتے ہی ملکہ راجی جونپور سے روانہ ہوگئیں، لیکن ابھی وہ قنوج ہی پہنچی تھیں کہ جونپور کے کوتوال نے موقع غنیمت جانتے ہوئے شہزادہ حسن خاں کو قتل کروا دیا۔ اِس حادثہ کے نتیجے میں ملکہ راجی، سلطان محمد شاہ کے دوسرے بھائی اور تمام اُمراء بھی اُس کے خلاف ہو گئے اور انھوں نے اتفاق کر کے شہزادہ سلطان حسین شاہ شرقی کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔ سلطان محمد شاہ اِن حالات سے بوکھلا گیا اور اپنی حفاظت میں تنہا لڑتا ہوا راجگیر کے قریب قتل ہو گیا۔ یہ واقعہ 1458ء میں پیش آیا۔اُس کا عہدِ حکومت صرف پانچ مہینے رہا جس میں ایسے تمام وہ واقعات رونماء ہوئے کہ جن کی وجہ سے سلطنت جونپور شرقی کی بنیادیں کھوکھلی ہوگئیں۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. طبقات اکبری، جلد 1، صفحہ 303۔
  2. تاریخ فرشتہ، جلد 2 ، صفحہ 599۔
  3. تذکرۂ مشائخ شیراز ہند جونپور،  صفحہ114۔
  4. تاریخ فرشتہ، جلد5، صفحہ 599۔
  5. طبقات اکبری، جلد1، صفحہ 304۔
  6. تذکرۂ مشائخ شیراز ہند جونپور،  صفحہ115۔
سلطان محمد شاہ شرقی
 وفات: 1458ء
مذہبی القاب
ماقبل  سلطان جونپور سلطنت
1457ء1458ء
مابعد