ملکہ راجی

جونپور سلطنت کی ملکہ اور سلطان محمود شاہ شرقی کی زوجہ

ملکہ راجی سلطان ناصر الدین محمود شاہ شرقی کی زوجہ، جونپور سلطنت کی ملکہ اور سلطان محمد شاہ شرقی کی والدہ تھیں۔ ملکہ راجی نے اپنے فرزند سلطان محمد شاہ شرقی کے اوائل عہدِ حکومت میں بطور نائب السلطنت فرائض انجام دیے۔ انھیں ہندوستان کی مشہور ترین مسلم حکمران خواتین میں سرفہرست شمار کیا جاتا ہے۔

ملکہ راجی
معلومات شخصیت
مقام وفات جونپور ضلع   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ملکہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

ابتدائی حالات ترمیم

ملکہ راجی سے متعلق ابتدائی حالات بالخصوص پیدائش و سالِ وفات کسی تاریخی کتاب میں مرقوم نہیں۔ ملکہ کے احوال محض سلطان محمود شاہ شرقی کے عقدِ نکاح میں آنے کے بعد بطور سماجی اصلاحات کے ہی ملتا ہے، وگرنہ ذاتی معلومات فراہم نہیں ہیں۔

سماجی اصلاحات و تعمیرات ترمیم

ملکہ راجی کی شخصیت اُن کی سماجی اصلاحات اور عوامی خدمات کے باعث ہی تاریخ میں اپنا مقام بنا سکی ہے۔ انھوں نے علما و صوفیا کی خدمات، رعایا کی فلاح و بہبود اور خاص طور پر تعلیمِ نسواں کے لیے جو قابلِ قدر کام کیے، وہ ہندوستان کے عہدِ وسطیٰ میں عدیم المثال مانے جاتے ہیں۔ ملکہ نے بہت سی مساجد، خانقاہیں، مدرسے، پُل اور مقبرے تعمیر کروائے۔ متعدد گاؤں اُن کی خواہش پر بسائے گئے جو آج بھی آباد ہیں۔ ملکہ کے عہد کی ایک حسین یادگار ’’محل نماز گاہ‘‘ تھا، جس کی تعمیر میں اُس زمانے کے بہترین کاریگروں نے حصہ لیا تھا۔ محل نمازگاہ سے ملحقہ ایک مدرسہ، مہمان خانہ، حوض اور باغ بھی تھا۔ ملکہ اِسی محل میں اپنی کنیزوں اور سہیلیوں کے ہمراہ رہتی تھیں۔ یہ محل مسجد لال دروازہ (جونپور) کے پاس تھا اور مسجد کی طرح یہ بھی سرخ پتھر سے تعمیر کیا گیا تھا۔ ملکہ کا ایک اور محل ’’محل بی بی راجی‘‘ کے نام سے بھی تھا جو جامع مسجد (جونپور) کے قریب تھا۔ مذکورہ محل کی چوڑائی 140 فٹ اور لمبائی 190 فٹ تھی۔ دہلی کے سلطان سکندر لودھی نے اپنے زمانہ حکومت میں اِس محل کو مسمار کر دیا تھا لیکن بعد میں اِس محل کو سلطان حسین شاہ شرقی کے پوتے عمر خاں نے مرمت کروا کے اپنی رہائش گاہ بنا لیا تھا۔بعد ازاں شرقیوں کے جانشین صدیوں تک اِسی میں مقیم رہے۔[1][2]

ملکہ نے اپنی چہیتی بیٹی لاڈلی بیگم کے لیے بھی جونپور سے کچھ فاصلہ پر ایک نالے کے کنارے ایک محل کی بنیادی اُستوار کی تھیں۔ یہ نالہ شہر جونپور اور کرنجہ کے درمیان آج بھی بہتا ہے۔ یہاں اُس نے کچھ رہائشی کمرے، ایک پُل اور ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ لیکن یہ محل لودھی اور شرقی جنگوں کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا اور سلطان سکندر لودھی نے اِس محل کی بنیادوں اور بنے ہوئے رہائشی کمروں اور پُل کو بھی تباہ کر دیا تھا۔اِس مسجد کے کتبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعمیرات سنہ 1447ء میں ہوئی تھیں[3]۔ اب صرف ایک مسجد باقی ہے جو مسجد بی بی راجی کے نام سے مشہور ہے۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. جونپور نامہ، صفحہ 52۔
  2. تذکرۂ مشائخ شیراز ہند جونپور،  صفحہ111۔
  3. جونپور نامہ، صفحہ 52-53۔
  4. Indian Architecture, The Islamic Period, p. 45