سلیم کاشر ایک مایہ ناز پنجابی شاعر تھے ان کا کلام ایم اے پنجابی کے نصاب میں شامل ہے،

پیدائش

ترمیم

محمد سلیم متخلص بہ کاشر 1934ء کو محمد دین بٹ کے گھر پیدا ہوئے. ان کا تعلق کشمیری فیملی سے تھا، وزیر آباد میں بھی قیام رہا بعد میں لاہور منتقل ہو گئے

عملی زندگی

ترمیم

نیشنل بینک آف پاکستان سے بطور اے وی پی ریٹائر ہوئے۔ کاشر صاحب بینک کی ڈیوٹی کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور یا فلم سٹوڈیوز چلے جاتے۔ انھوں نے ریڈیو اور فلموں کے لیے گیت لکھے، ان میں بعض گیت انتہائی مقبول ہوئے۔ فلمی گیتوں میں بھی انھوں نے ادبی چاشنی برقرار رکھی ۔ مثلاََملاحظہ کریں …؎

  • میں کھولاں کیہڑی کتاب نوں
  • میں کیہڑا سبق پڑھاں

ان کی غزل کے دو اشعار دیکھیں

  • جو بول زبانوں نکل گیا
  • او تیر کمانوں نکل گیا
  • میں گھر دی آگ لکاندا ساں
  • دھواں روشن دانوں نکل گیا

ادبی خدمات

ترمیم

سلیم کاشر کا پہلا پنجابی شعری مجموعہ ’’تتیاں چھاواں‘‘ 1960ء میں شائع ہوا۔ اس کا دیباچہ صوفی تبسم نے لکھا۔ یہ غزلیات کا مجموعہ ہے۔ ’’ہوا دی سولی‘‘ ان کی پنجابی نظموں کی کتاب ہے جس پر انہیں1982ء میں صدارتی ایوارڈ ملا۔ 1992ء میں ان کی پنجابی غزلوں کا مجموعہ ’’درداں دا کھڑیا موتیا‘‘ شائع ہوا جس پر انھیں کھدر پوش ٹرسٹ انعام ملا۔ ’’ہوا دی سولی‘‘ کے علاوہ ان کا نعتیہ مجموعہ ’’حرف درودی ہوئے‘‘ چھپا جس پر سیرت ایوارڈ ملا۔ سلیم کاشر پنجابی کے علاوہ اردو اور فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ انھوں نے خیام کی منتخب رباعیات کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا جو ’’چھلکے جام خیام دا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا فلیپ احمد ندیم قاسمی نے لکھا۔

وفات

ترمیم

سلیم کاشر نے 24 دسمبر 2017ء کو رحلت فرمائی،

حوالہ جات

ترمیم

تاریخ وزیر آباد ،،، کامران اعظم سوہدروی