بھگت سنگھ کی سمادھی پہلے پاکستان میں ہوتی تھی

17 جنوری 1961ء کو مغربی پاکستان اور بھارتی پنجاب کی 325 میل طویل سرحد پر پاکستان اور بھارت کے بعض سرحدی علاقوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔ یہ علاقے اس سرحدی معاہدے کے تحت منتقل کیے گئے جس پر تقریباََ ایک برس پہلے 11 جنوری1960ء کو لیفٹیننٹ جنرل کے ایم شیخ اور سردار سورن سنگھ نے دستخط کیے تھے اور اس کی ضرورت سندھ طاس معاہدے کی ضروریات کی وجہ سے پیش آئی۔ اس معاہدے کی رو سے پاکستان نے قریباََ 35 ہزار ایکڑ رقبہ بھارت کے اور بھارت نے84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کیا۔ سرحدی علاقوں کے اس تبادلے سے ستلج ہیڈ ورکس کا مکمل کنٹرول بھارت کے پاس چلا گیا اور سلیمانکی ہیڈورکس اور جسڑ کے پل کا انصرام مکمل طور پر پاکستان کے پاس آگیا۔ پاکستان نے ایک مکمل گاؤں اور32 گاؤوں کے کچھ حصے بھارت کو اور بھارت نے 4 مکمل گاؤں اور 34 گاؤوں کے کچھ حصے پاکستان کو دیے۔ اس تبادلے میں بھارت نے حسینی والا ضلع فیروزپور کا وہ مقام بھی پاکستان سے حاصل کر لیا جہاں 1931ء میں مجاہدِ آزادی بھگت سنگھ کو لاہور میں پھانسی دینے کے بعد ، ان کی سمادھی بنائی گئی تھی۔ [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ( پاکستان کرونیکل)