سنائی غزنوی
حکیم سنائی ایک اعلی درجہ کے شاعر اور سب سے پہلے غزل کو حکیم سنائی نے ہی رواج دیا ۔
سنائی غزنوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1080ء [1][2] غزنی [3] |
وفات | سنہ 1131ء (50–51 سال)[4] غزنی [3] |
شہریت | سلطنت غزنویہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر [3]، فلسفی |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیمحکیم سنائی کا پورا نام ابوالمجد بن آدم اور ان کا تخلص " سنائی تھا۔
ولادت
ترمیمدرویشانہ زندگی
ترمیمحکیم سنائی ایک نہایت سادہ انسان تھے جنھوں نے اپنی پوری زندگی درویشی اور فقیری میں گزاری۔ انھیں سیر و سیاحت کا شوق تھا اور اسلامی حکومت کے زیر اثر مناطق کی سیر کرنے کے لیے نکلے اور اسی دوران انھیں حج کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ حکیم سنائی کو مختلف علوم پر دسترس حاصل تھی جن میں تفسیر، حدیث، فقہ اور ادبی علوم شامل تھے۔ اس کے علاوہ وہ فلسفہ، ہندسہ اور علم طب میں بھی ماہر تھے۔ ایک حد تک وہ خواب کی تعبیر بتانے کا علم بھی جانتے تھے۔ حکیم کو ان کی اعلی علمی قابلیت اور ذہانت کے صلے میں مختلف القاب سے نوازا گیا۔
القابات
ترمیمجن القاب سے انھیں نوازا گیا ان میں " حکیم " اور " شیخ " شامل ہیں۔ وہ اپنے زمانے کے معروف اور ہردلعزیز شخص تھے اور شعرا، عرفاء اور علما کی نظر میں انھیں نہایت اعلی مقام حاصل تھا۔ انھوں نے قصائد، غزلیات اور مثنویات پر طبع آزمائی کی۔ آپ کی مثنویوں کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔
مثنویات
ترمیمان کی مشہور مثنویوں میں
- حدیقتہ الحقیقہ
- طریق التحقیق
- سیر العباد الی المعاد
- مثنوی کارنامہ
- عقل نامہ
- عشق نامہ بہت معروف ہیں ۔
زہد و تقوی
ترمیمسنائی ابو یوسف ہمدانی کے مرید تھے جب سنائی کو احساس ہوا کہ پست اخلاق اور بد اعمال کی مدح نہیں کرنی تو دنیا کی زندگی سے بیزار ہوئے اور زہد و تقوی و سلوک کی طرف مائل ہو گئے۔ یہی وہ دور تھا جب ان کی شاعری نے ایک نیا موڑ لیا ۔ ما در طلب زلف تو چون زلف تو پیچان ما در ہوس چشم تو چون چشم تو بیمار
اصطلاحات تصوف
ترمیمحکیم سنائی بہت ہی سادہ، واضح اور صریح انداز میں شاعری کیا کرتے تھے۔ ان کے کلام میں زلف، چشم بیمار، مے و میکدہ، رند و خرابات جیسی اصلاحات کو مضامین تصوّف میں استعمال کیا گیا ہے اور خیال یہ کیا جاتا ہے کہ شاید حکیم سنائی وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے سب سے پہلے ایسی اصطلاحات کا استعمال مضامین تصوّف میں کیا۔ حکیم سنائی کی وجہ شہرت ان کی مثنویاں ہیں۔ ان کی استادانہ مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ عطار اور مولانا روم جیسے عظیم شعرا نے حکیم سنائی کو اپنا پیشوا تسلیم کیا۔ حکیم سنائی اپنے کلام میں صوفیانہ اور قلندرانہ اصطلاحات کا استعمال عام طور پر کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے خیال کی تائید میں حکایت یا تمثیل لاتے۔ پندو موعظت کو سادہ اور عام فہم انداز میں پیش کیا کرتے جو لازمی طور پر قاری کو متاثر کر دیتا [5]
وفات
ترمیمحکیم سنائی غزنوی کا سال وفات 535ھ ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb100997949 — بنام: Abū-l-Maǧd Maǧdūd Ibn Ādam Sanāʾī Ġaznavī — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ بنام: Sanai — PLWABN ID: https://dbn.bn.org.pl/descriptor-details/9810613699705606
- ^ ا ب پ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119501082 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 اگست 2022
- ↑ صفحہ: 14 — https://archive.org/details/rumisworldlifewo0000schi/mode/2up
- ↑ http://www.tebyan.net/QuranIndex.aspx?pid=150159
<link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:ادب_حکمت" />