سود کے اسلامی مطلقات
قرانی نصوص
ترمیمقرآن الکریم میں سود کے لیے ’ربوٰ‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مادہ ’رب و‘ ہے۔ جس کے معنی زیادت، نمو، بڑھوتری اور چڑھنے کا اعتبار ہے۔ ربا بڑھا اور زیادہ ہوا۔ ربا فلان الرابیہ، وہ ٹیلے پر چڑھ گیا۔ ربا فلان اسویق، اس نے ستو پر پانی ڈالا اور ستو پھول گیا۔ ربانی حجرۃ، اس نے فلاں کی آغوش میں نشو و نما پائی۔ اربی الیی، چیز کو بڑھایا۔ ربوۃ، بلندی۔ رابیہ، وہ زمین جو عام سطح ارض سے بلند ہو۔ قران الکریم میں جہاں جہاں اس مادہ کے مشتقات آئے ہیں سب میں زیادتی، زیادت، غلو اور نمو کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مثلأئ
ا- فانا انزلنا علیہا الما اھتزت وربت (الحج)
’پھر جب ہم نے اس پر پانی برسایا، وہ برگ و بار لانے لگی۔‘
2-یمحقاللہ الربوا او یربی الصدقات (البقرہ - 276)
’اللہ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘
3 - واو ینہماالی ربوۃ (المومنوں - 05)
’اور ہم نے( ابن مریم اور اس کی ماں کو) ایک سطح مرتفع پر رکھا‘
4 - فاحتمل السیل زبدا الربیا (الرعد - 71)
’پھر جب سیلسب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آ گئے‘
5 - کمثل جنتہ بربوۃ (البقرہ - 562)
( ان کی مثال ایسی ہے) جیسے کسی سطح مرتفع پر ایک باغ ہو۔‘
6 - وقل رب ارحنہماکما ربینی صغیرا (بنی اسرائیل - 42)
’ان کے حق میں ہمیشہ دعا کرا کرو ’کہ پروردگار‘ جس طرح انھوں نے مجھے کم سِنی میں پالا پوسا‘۔
7 - فاحذھم اخذہ الربیہ (اسحاق - 01)
’تو اس نے ان کو بڑی سختی سے پکڑا۔‘
’(فرعون نے کہا) کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا۔‘ اسی مادہ سے ”ربوٰ“ ہے اور اس سے مراد مال کی زیادتی اور اس کا اصل سے بڑھ جانا ہے۔ چنانچہ اس معنی کی تصریح خود قرآن میں کردی گئی ہے۔
9 - وبدومابقی من الربو۔
’جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہے گیا ہے اسے چھوڑدو۔‘
01 - وما ایتم من ربا‘ لیربوفی اموال الناس فلایر بوا عنداللہ (روم - 93)
’اور جو سود تم نے دیا ہے کہ لوگوں کے مال بڑھیں تو اللہ کے نزدیک اس سے مال نہیں بڑھتا ہے۔‘
11 - یمحق اللہ الربوا و یربی الصدقات (البقرہ - 276)
اللہ سود کا مٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشوونماہ دیتا ہے۔
21 -وم ٰاٰتیتم من ربا لیربوا فی اموالناس فلایربوا عندللہ ومااٰتیتم من زکوٰۃ تریدون وجہ اللہ فاولٰئک ہم المضعفون۔ (الروم - 93)
اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک وہ ہر گز نہیں بڑھتا ہے۔ بڑھوتری تو ان اموال کو نصیب ہوتی ہے، جو تم اللہ کے لیے زکواۃ میں دیتے ہو۔
31 - اتقوااللہ وزروا مابقی من الربوٰ ان کنتم مومنین فان لم تفعلوا فازنوا بحرب من اللہ ورولہ - (البقر، 83)
اللہ سے ڈرو اور جو سود تمھارا لوگوں پر باقی ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان قبول کرو۔
قرآن کریم کی ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ ربا کے لفظی معنی اضافہ، زیادتی اور بڑھوتری کے ہیں۔ شریعت میں اس سے اصل زر اضافہ مراد ہے، خواہ وہ کسی قدر تھوڑا ہو‘ اس لیے اس میں سادہ سود اور
مرکب سود دونوں شامل ہیں۔ دیکھیے Lanes's Arbic English Lexicon اس کی تائید عربی زبان پربہترین سند امام راغب اصفہانی کی (مفردات القران) اور زبیدی کی (تاج العروس) سے ہوتی ہے۔
احادیث
سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کو ستر اجزاء میں تقسیم کیا جائے تو اس کا ہلکا سا جز اس گناہ کے برابر ہو گا کہ ایک آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔ (ابن ماجہ۔ بیہقی)
کتاب اللہ احکام شریعہ کی تفصیل و تشریح کے لیے سنت سے رجوع کرنے کا حکم دیتی ہے اور سنت (حدیث) کسی بھی معاملے میں نص کا درجہ رکھتی ہے اور کتاب اللہ کی آیت کے بعد خبر متواتر بھی ہو تو اس نصوص کا مزید تاکید کا اعادہ ہوتا ہے۔
سود کے بارے میں صحیح احادیث کثرت سے اور مشہور ہیں۔ یہاں ہم کچھ احادیث درج کرتے ہیں۔
عباہ ؓ بن صامت سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے سونے کا سونے سے اور چاندی چاندی سے اور گیہوں کا گیہوں سے اور جو کا جو سے، کھجور کا کھجور سے اور نمک کا نمک سے اس طرح تبادلہ ہونا
چاہے کہ دست بدست ہو۔ البتہ اگر مختلف اصناف کی چیزوں کا ایک دوسرے سے مبادلہ ہو تو پھر جس طرح چاہو بیچو، بشرطیکہ لین دین دست بدست ہو جائے۔ (احمد، مسلم) یہی حدیث نسائی اور ابن ماجہ میں بھی آئی ہے اور اس کے آخر میں اتنا اضافہ اور ہے اور آپﷺ نے حکم د یا کہ ہم گیہوں کا مبادلہ جو سے اور جو کا مبادلہ گیہوں سے جس طرح چاہیں کریں۔ (احمد ومسلم و النسائی و ابن ماجہ وابو داؤد)
ابو سعید ؓ خذری کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا سونے کا مبادلہ سونے سے، چاندی کا مبادلہ چاندی سے، جو کا مبادلہ جو سے، کھجور کا مبادلہ کھجور سے، نمک کانمک سے جیسے کا تیسا اور دست بدست ہونا چاہیے۔ جس نے زیادہ لیا دیا اس نے سودی معاملہ کیا۔ لینے دینے والا دونوں گناہ میں برابر کے ہیں۔ (بخاری، احمد، مسلم) ایک دوسری روایت میں ہے، سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض فروخت نہ کرو، مگر وزن میں مساوی، جوں کا توں اور برابر۔ (احمد۔ مسلم)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرما یا کھجور کا مبادلہ کھجور سے، گیہوں سے جو کا جو سے، نمک کا نمک سے جوں کا توں اور دست بست ہونا چاہیے۔ جس نے زیادہ دیا یا لیا اس نے سودی معاملہ کیا۔
سوائے اس صورت کے جب کہ ان اشیاء کے رنگ مختلف ہوں۔ (مسلم)
سعدؓ بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ خشک کھجور کا مبادلہ کس طریقہ پر کیا جائے۔ آپﷺ نے فرمایا، ”کیا تر کھجور سوکھنے کے بعد کم ہو جاتی ہے؟ سائل نے عرض کیا ہاں۔ تب آپﷺ نے سرے سے اس مبادلہ کو منع فرمایا دیا (مالک، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)
ابو سعید خذری ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بلعموم اجرتوں اور تنخواؤں میں مخلوط کھجوریں ملا کرتیں تھیں اور ہم دو دو صاع مخلوط کھجوریں دے کر ایک صاع اچھی قسم کی کھجوریں لے لیا کرتے تھے۔ پھر نبی
ﷺ نے فرمایا کہ دو صاع کا مبادلہ ایک صاع سے کرو اور نہ دو درہم کا ایک درہم سے کرو۔ (بخاری)
ابو سعید ؓ خذری اور ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولاللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار مقرر کرکے بھیجا وہ وہاں سے (مال گزاری میں) عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ کیا خیبر کی ساری کھجوریں ایسی ہوتی ہیں؟ اس نے کہا۔ نہیں یا رسول اللہ، ہم جو ملی جلی کھجوریں وصول کرتے ہیں، کبھی دو صاع کے بدلے ایک صاع اور کبھی تین صاع کے بدلے دو صاع کے حساب سے ان سے ان اچھی کھجوروں سے بدل لیا کرتے ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ایسا نہ کرا کرو، پہلے ان مخلوط کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کردو، پھر اچھی قسم کی کھجوروں کو درہموں کے عوض خرید لو۔ یہی بات آپﷺ نے زور دے کے سے مبادلہ کرنے کی صورت،میں ارشاد فرمائی۔ (بخاری، مسلم)
ابو سعید خذریؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بلالؓ نبیﷺ کی خدمت میں برنی کھجوریں لے کر آئے۔ (جو کھجوروں کی ایک بہترین قسم ہوتی ہے) آپﷺ نے پوچھا یہ کہاں سے لے کر آئے؟ انھوں نے عرض کیا ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجوریں تھیں۔ میں نے وہ دو صاع دے کر ایک صاع خرید لی۔ فرمایا ہائیں؛ قطعی سود: قطعی سود: ایسا ہرگز نہ کیا کرو۔ جب تمھیں اچھی کھجوریں خریدنی ہوں تو پہلے اپنی کھجوریں درہم کے یا کسی چیز کے عوض فروخت کردو۔ اسی قیمت سے اچھی کھجوریں خرید لو۔ (بخاری، مسلم)
فضالہؓ بن عبید کہتے ہیں کہ جنگ خبر کے موقع پر میں نے ایک جڑاؤ ہار بارہ دینار میں خریدا۔ پھر میں نے اس ہار کو توڑ کر نگ اور سونا الگ الگ کیا تو اس کے اندر سے زیادہ کا سونا نکلا۔ میں نے اس کا ذکر
حضورﷺ سے کیا۔ آپﷺ نے فرمایا آئندہ سے سونا کا جڑاؤ زیور سونے کے عوض نہیں بیچا جائے، جب تک کہ نگ اور سونے کو الگ الگ نہ کر دیا جائے۔ (مسلم، نسائی، ابوداؤد، ترمذی)
جابر ؓبن عبد اللہ کے مطابق رسول اکرامﷺ نے سود کی دستاویز لکھنے والے اور گواہی دینے والے سب پر لعنت کی ہے اور فرمایا ہے یہ سب برابر ہیں۔
امام مسلم ؒ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرام ﷺ سود لینے والے، دینے والے اور اس کی د ستا ویز لکھنے والے اور اس کی شہادت دینے والے پر بھی لعنت فرمایائی ہے اور مزید فرمایا کہ (ارتکاب گناہ کے لحاظ سے ) یہ سب برابر ہیں۔ ( مسلم)
رسول اکرام کے ایک صحابی فضالہؓ بن عبید روایت کرتے ہیں کہ ہر قرض جس سے قرض خواہ کو کچھ نفع حاصل ہوتاہے، رباکی صورتوں میں سے ایک ہے۔ (بہقی)
رسول اللہ ﷺ کا آخری خطبہ جو تقریباً ایک لاکھ صحابہ پر مشتعمل تھا۔ اس میں آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے سود کی حرمت کے مطلق فرمایا ”سود کی ہر شکل منسوخ کردی گئی، البتہ اصل رقم تمھاری ہے جو تم لے سکتے ہو۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ نے سود کی قطعی حرمت کے متعلق اپنا حکم بھیج دیا ہے۔ میں عباسؓ بن عبد المطلب کے سود کی منسوخی سے اس کی ابتدا کرتا ہوں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے چچا عباسؓ کا وہ سارا سود معاف کر دیا جو لوگوں کے ذمہ تھا۔“
رسول اللہ ﷺ کی بہت احادیث موجود ہیں، جن میں ربا کی حرمت یا ممانیت ہے۔ ان روایتوں کو امام مالکؒ، امام بخاری ؒ،مسلم ؒ، ابوداؤد ؒ، ترمذیؒ، نسائی، ابن ماجہؒ، امام مالک، احمدؒ بن حنبل، دار قطعیؒ اور دیگر محدثین نے اپنے مضموہائے میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ نیز ربا کی حرمت پر مولانا محمد شفیعؒ نے اپنی کتاب مسلۂ سود میں 74 احادیث جمع کیں ہیں۔
اجماع زر
شریعت میں انسان کے عملی اور مالیاتی حصہ پر دو مختلف قسم کے قواعد لاگو ہوتے ہیں۔ اول الذکر کے عوض ایک مقرر معاوضہ دیا جاتا ہے۔ حکومت مجاز ہے کہ اگر وہ ضروری سمجھے تو معاوضہ میں کم سے کم شرح مقرر کر دے اور زیادہ سے زیادہ شرح کو بازار ی طاقتوں پر چھوڑ دے۔ اس کے برعکس مالیاتی حصہ جو قرض یا ادھار کی شکل میں ہوتا ہے۔ بدل اسی جنس اور اسی مقدار میں ادا کرنا پڑتا ہے اور قرض کی رقم پر اضافہ سود بن جاتا ہے،جس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ یہ حقیقت قران الکریم، رسول اکرم ﷺ کی احادیث اور تمام مکاتب فکر کے جملہ تفصیلی مباحث سے کسی استثناء کے بغیر ثابت ہے۔
مسلم ماہرین قانون اس قرانی حرمت کے بارے میں اتنے محتاط ہیں کہ انھوں نے اس عمل کو ایسے تمام معاملات میں جہاں جنس یا سرمایا کے موخر تبادلہ کادخل ہو نامنظور کر دیا ہے۔ اس لیے اس حرمت
کے دائرے میں نہ صرف قرضے اور ادھار آتے ہیں بلکہ کریڈٹ، مبادلہ، کرنسی، کا موخر تبادلہ، اسقاط زر Damonetization، تخفیف زر Devaluation، مکرر مالیت شماری Revaluation کے علاوہ معاوضہ کی دیر سے ادائیگی، قانونی ذمہ داری سے بریت نیز قرضہ سے خلاصی کے وقت کرنسی کی اکائی میں تبدیلی وغیرہ سب اس کے تحت آتے ہیں۔
حدیث کی رہنمائی میں فقہا نے رائے ظاہر کی ہے کہ اگر درہم اور دینار گن کر ادھار دیے گئے ہوں تو وہ گن کے ہی واپس کیے جائیں گے، وزن کر کے نہیں۔ اس طرح تول کر ادھار دیے گئے ہوں تو وزن کر کے ہی لوٹائے جائیں گے۔ اشیاء کے ادھار کے بارے میں فقہا نے کہا کہ وہ اسی جنس اور مقدار میں واپس کی جائیں گی، خواہ ادھار کے وقت ان کی قیمت میں کس قدر کمی و بیشی ہو گئی ہو۔
اگر قرض کی رقم فلوس یا درہم کے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں ہو، جس پر حکومت نے پابندی لگادی ہو اور وہ بطور کرنسی رائج نہ رہے ہوں تو قرض خواہ ان کی مالیت وصول کرنے کا مجاز ہوگا۔ وہ اس
سکے کو قبول کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔ کیوں کے نقص اس وقت واقع ہوا، جب وہ سکے مقرض کی تحویل میں تھے۔ فلوس کی قیمت کا تعین قرض لینے کی تاریخ پر اسی کی رواں قیمت کے حساب سے کیا جائے گا اور قرض خواہ کو وہ قیمت قبول کرنی پڑے گی، خواہ قیمت میں کوئی کمی ہو گئی ہو یا نقص پڑ گیا ہو۔ لیکن اگر وہ سکے رائج نہ رہنے کے باوجود کرنسی کے طور پر چلتا ہو اور لوگ اسے قبول کرتے ہوں تو قرض خواہ اسے قبول کرے گا۔ یہ موقف اس عمومی اصول پر مبنی ہے کہ اتنی مقدار ادا کی جائے گی، خواہ ادھار کی مدت کے دوران اس مال کی قیمت بڑھ جائے یا گھٹ جائے یا جوں کی توں رہے۔ باقی ماندہ اجرت کے واجبات کی ادائیگی کے لیے بھی انھوں نے ایسی رائے کا اظہار کیا ہے۔
فقہا اس رائے کے حامل رہے ہیں کہ اگر قرض کی واپسی تک کرنسی کی قیمت گر جائے تو مقروض کو سکوں کی اتنی ہی تعداد واپس کرنی پڑے گی جتنی لی تھی۔ وہ کوئی زائد چیز ادا کرنے کا پابند نہ ہو گا۔
درہم اور دینار کے بارے میں امام حنیفہ ؒ اور امام احمدؒ کا مذہب یہ ہے کہ ان میں علت تحریم ان کا وزن ہے اور امام شافعی ؒ و مالک ؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ بن حنبل کی رائے یہ ہے کہ قیمت اس کی علت ہے۔
زیلعیؒ نے بھی اس موضع پر بحث کی ہے اور اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے، اگر کوئی شخص کچھ سکے یا کرنسی بطور قرض لے اور واپسی کے وقت ان سکوں کی قیمت کم ہو جائے تو امام ابو حنیفہؒ کے بقول اسے اسی قدر سکے واپس کرنے ہوں گے، امام ابویوسف ؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک اسے اس قدرمالیت ادا کرنی ہو گی، جو قرض کے وقت ہو۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ سکوں کی قیمت اپنی جگہ قائم نہ رہی، لہذا مقروض پر اسی قدر قیمت واپس کرنا لازم ہے۔ امام محمدؒکی رائے یہ ہے کہ وہ سکے اس قدر مالیت کے ہونے چاہیے، جتنی کہ قیمت کم ہونے موقع پر ان کی مالیت ہو۔
یہی بات فتاویٰ قاضی خان میں کہی گئی ہے اور قاضی ظہیر الدینؒ نے اس کی تائید کی ہے۔ علامہ غازی الفرتاشیؒ لکھتے ہیں۔”فقہا کی زیادہ تر مستند کتابوں میں امام ابویوسفؒ کی رائے پر فتویٰ دیا گیا ہے۔ ”الذخیرہ اور الخلاصۃ“ میں بھی ایسی رائے ظاہر کی گئی ہے امام ابوحنیفہؒ اور امام ابو یوسف ؒ کے مابین یہ اختلاف رائے اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے، جب قرضہ فلوس کی طرح علامتی سکوں میں لیا جائے جو عام طور پر متروک ہوجاتے ہیں یا ان کی قیمت گھٹ جاتی ہے۔ لیکن اگر قرضہ خالص سونے کے دینار یا چاندی درہم میں لیا گیا ہو، جو مکمل سکے تھے اور شاذ ہی متروک ہوتے یا ان کی قیمت میں کمی واقع ہوتی تھی تو اس بارے میں اتفاق رائے یہ ہے کہ اتنی ہی مقدار واپس کی جائے گی جتنی قرض لی گئی تھی۔ خواہ اس کی قیمت گھٹ جائے یا بڑھ جائے گویا اس سلسلے میں امام ابو یوسفؒ بھی امام ابو حنیفہ ؒ کے ہم خیال ہیں۔ اگر حکومت کرنسی کی قیمت میں کمی کا حکم دیتی ہے تو اس کرنسی میں لیا گیا قرض اسی مقدار میں اداکیا جائے گا جتنی کہ قرض لی گئی تھی، بشرطیکہ کرنسی متعین اور معروف ہو اور اگر کرنسی متعین اور معروف نہ ہو تو معاہدہ کے وقت کی رائج کرنسی میں قیمت ادا کی جائے گی اور اگر قرض کا معاملہ کسی خاص قسم کی کرنسی کے بارے میں طے پایا ہو اور بازار میں اس نام کی متعد دکرنسیاں چل رہی ہوں تو اس کی ادائیگی اس کرنسی میں کی جائے گی، جو فریقین معاہدہ میں سے کسی کے لیے بھی نقصان دہ نہ ہو یا جو رواج کے مطابق ہو، بعض فقہا کی رائے ہے کہ ایسی صورت میں ادائیگی باہمی صلاح و مشورے سے کرنی چاہیے، تاکہ دونوں میں کسی کو نقصان نہ ہو کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے کہ ”نہ کوئی نقصان اٹھائے نہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچائے۔“
جب کسی کرنسی میں کیے ہوئے معاہدے کے بعد وہ کرنسی اگرچہ گردش میں رہے، لیکن اس کی قدر گھٹ جائے تو ایسی صورت میں معاہدہ منسوخ نہیں ہوگا، کیوں کہ سرمایا ضائع نہیں ہوا ہے۔ اس لیے بائع کو اتنی رقم قبول کرنی ہوگی جتنی کہ اس نے دی ہو۔
زاہدیؒ کے مطابق اس صورت میں جب کوئی زیر گردش کرنسی کی مخصوص رقم کے عوض کوئی چیز فروخت کرتا ہے۔ لیکن بعد ازاں اس کرنسی کا اسقاط ہو جاتا ہے تو بیع کا معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔ اس
لیے خریدا ہوا مال واپس کر دے گا۔ اگر جوں کا توں ہو، لیکن اگر اس نے کچھ خرچ کر لیا یا اسے مختلف شکل میں تبدیل کر دیا تو خریدار اس کے مثل مال واپس کرے گا۔ اگر وہ مال قابل تبدیلی جنس ہو بصورت دیگر مروجہ سکے میں اس مال کی قیمت ادا کی جائے گی، جو اس قیمت کے مساوی ہو گی جتنی کہ مال خریدار کے حوالہ کرتے وقت ہو۔
مندرجہ بالا رائے امام ابوحنیفہؒ کے موقف کی نمائندگی کرتی ہے۔ امام ابویوسف کے نزدیک ذمہ دار فریق وہ مساوی قیمت دوسری کرنسی کے لحاظ سے ادا کرے گا، جو معاہدہ کے وقت گردش میں ہو۔ امام محمد ؒ کے مطابق اسے وہ ساقط شدہ کرنسی واپس کرنی ہوگی جس پر معاہدہ ہوا ہو۔ امام غزالیؒ کی رائے میں اگر کوئی شخص سکوں کی شکل میں کوئی رقم قرض لیتا ہے جو بعد ازاں ساقط ہوجائیں تو اسے ان سکوں کی مثل ادائیگی کرنی ہوگی، ان کی قیمت نہیں۔
ہدایہ کے مطابق کم قدر درہم کے عوض فروخت، جنہیں بعد ازاں ساقط کر دیاجائے اور وہ کرنسی مروج نہ رہے، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک منسوخ ہوگی۔ لیکن امام ابویوسف ؒ کی رائے میں خریدار کو اس قدر
قیمت ادا کرنی ہوگی جو فروخت کے دم مروج ہو۔ جبکہ امام محمد ؒ کے مطابق وہ گھٹی ہوئی قیمت کے سکوں کی مالیت کے برابر رواں سکہ میں ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
شرح طحاوی کے مطابق ایسی صورت میں جبکہ فلوس کو متروک نہ کیا جائے، البتہ ان کی ثمنیت کم یا زیادہ ہو جائے تو قرض دار کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اصل رقم واپس کرے، جو اس نے قرض لی تھی اس پر سب کا اجماع ہے۔
اجماع سود
سود کے لیے قران الکریم میں ’ربوا‘ کا لفظ آیا ہے۔ جس کے معنی بڑہو تری کے ہیں۔ اگرچہ ربوا صرف سود کے لیے نہیں آیا ہے، بلکہ یہ دوسری اشیاء کے لیے بھی استعمال ہواہے، لیکن یہ ا شیاء ممنوع نہیں ہیں۔ لیکن سود کے لیے ربوا آیا ہے وہ ممنوع ہے۔
ربواٰ دراصل اس زائد رقم یا فائدے کو کہتے ہیں جو قرض کے معاملے میں ہو۔ اصطلاح شرح میں اس کو ’رباالنسۂ‘ کہتے ہیں۔
ربوا الفیصل اس زیادتی کو کہتے ہیں، جو ایک ہی جنس کی چیزوں کے لین دین میں ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس زیادتی کو حرام قرار دیا ہے۔
ایک گروہ کی رائے ہے کہ ربوا صرف چھ اجناس میں ہے جن کا حضور ﷺ نے فرمادیا ہے۔ یعنی سونا، چاندی، گیہوں، جو، خرما اور نمک۔ ان کے سوا دوسری چیزوں میں تفاصل کے ساتھ بلا کسی قید کے ہم جنس اشیاء کا لین دین ہو سکتا ہے۔ یہ مذہب قتاوہؒ اور طاؤسؒ اور عثمان البتیؒ اور ابن عقیلیؒ اور ظاہریہ کا ہے۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں پر جاری ہوگا، جن کا لین دین وزن اور پیمانہ کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ یہ عمارؒ اور امام ابو حنیفہؒ کا مذہب کا ہے۔ ایک روایت کی رو سے امام احمد بن حنبلؒ کی بھی یہی رائے ہے۔
تیسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم سونے چاندی اور کھانے کی ان چیزوں کے لین دین وزن کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یہ سعیدؒ بن المسیب اک مذہب ہے اور ایک روایت اس باب میں امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ بن
حنبل سے بھی مننقول ہے۔
چوتھا گروہ کہتا ہے یہ حکم مخصوص ہے ان چیزوں کے ساتھ جو غذا کے کام آتی ہیں، یہ ذخیرہ کرکے رکھی جاتی ہیں۔ یہ امام مالک ؒ کا مذہب ہے۔
درہم اور دینار کے بارے میں امام حنیفہ ؒ اور امام احمدؒ کا مذہب یہ ہے کہ ان میں علت تحریم ان کا وزن ہے اور امام شافعی ؒ و مالک ؓ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ بن حنبل کی رائے یہ ہے کہ قیمت اس کی علت ہے۔ مذاہب کے اختلاف سے جزوئی معاملات میں حکم تحریم کا اجرا بھی مختلف ہو گیا ہے۔ ایک چیز ایک مذہب میں سرے سے ہی سودی جنس ہی نہیں ہے اور دوسرے مذہب میں اس کا شمار سودی اجناس میں ہوتا ہے۔ ایک مذہب کی رو سے ایک چیز میں علت تحریم کچھ ہے اور دوسرے مذہب کے نزدیک کچھ اور۔ اس لیے بعض معاملات ایک مذہب کے لحاظ سے سود کی زد میں آجاتے ہیں اور دوسرے مذہب کے لحاظ سے نہیں آتے ہیں۔ لیکن یہ تمام اختلاف ان امور میں نہیں ہیں جو کتاب و سنت کی صریح احکام کی رو سے ربوٰ کے حکم میں داخل ہیں، بلکہ ان کا تعلق صرف مشتبہات سے ہے اور ایسے امور سے جو حلال و حرام کی درمیانی سرحد پر واقع ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات قابل ذک رہے کہ ہم جنس اشیاء کے مبادلہ میں تفاضل کا جو حکم دیا گیا ہے، اس سے جانور مستثنیٰ ہیں۔ ایک ہی جنس جانورں کا مبادلہ جو ایک دوسرے کے ساتھ تفاضل کے ساتھ کیا جا
سکتا ہے۔ نبیﷺ نے خود کیا ہے اور آپ ﷺ کے بعد صحابہ نے بھی کیا ہے۔
مولانا ابوالامودودیؒ لکھتے ہیں کہ جاہلیت میں ’الربوٰ‘ کا اطلاق جس طرزمعاملہ پر ہوتا تھا اس کی متعدد صورتیں سامنے آئیں ہیں۔
قتاوہؒ کہتے ہیں کہ اہل جاہلیت کا ربوا یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ مال فروخت کرتا تھا اور قیمت ادا کرنے کے لیے ایک مدت طے ہوجاتی تھی۔ اب اگر مدت پوری ہوجاتی تھی اور خریدار کے پاس اتنا مال نہ ہوا کہ قیمت ادا کرے تو بیچنے والا اس پر زائد کے رقم عائد کردیتا اور مہلت بڑھا دیتا۔
مجاہدؒ کہتے ہیں جاہلیت کا ربوٰ یہ تھا، ایک شخص کسی کو قرض لیتااور کہتا کہ اگر تو مجھے اتنی مہلت دے تو اتنا زیادہ دوں گا۔
ابو بکر جصاصؒ کی تحقیق ہے کہ اہل جاہلیت ایک دوسرے سے قرض لیتے تو باہم طے ہوجاتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم راس المال پر زیاو ہ دوں گا۔
امام رازیؒ کی تحقیق میں اہل جاہلیت کا یہ د ستور تھا کہ وہ ایک شخص کو ایک معین مدت کے لیے روپیہ دیتے تھے اور اس سے سود ماہ بماہ وصول کرتے رہتے۔ جب یہ مدت ختم ہوجاتی تو مدیون سے راس المال کا مطالبہ کیا جاتا۔ اگر وہ ادا نہ کر سکتا تو پھر ایک مزید مہلت دی جاتی اور سود میں اضافہ کر دیاجاتا۔
کارو بار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں، انہی کو اہل عرب اپنی زبان میں ’الربوٰ‘ کہتے تھے اور وہ یہی چیز تھی جس کی تحریم کا حکم قران الکریم میں نازل ہوا۔
ڈاکٹر محمد حسین نے مقدمہ سود میں بیان دیا کہ ”کسی قرض پر مدت کے عوض جو متعین نفع وصول کیا جاتا ہے سود ہے۔
Dictionary of Islam میں تھامسن پیٹرک ہیک Thomas Patric Hughes نے ربا کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ”یہ قانون شریعت کی اصطلاع ہے، جس سے ”قانونی پیمانہ پیمائش یا وزن کے مطابق ایک یا دو ہم جنس اشاء میں جو متضاد ہوں تبادلہ کے سمجھوتے میں زیادتی یا اضافہ مراد ہے، جس کی رو سے ایک ایسا اضافہ کسی بدل کے بغیر لازمی شرط کے طور پر شامل ہوتا ہے۔
امام طبریؒ لکھتے ہیں کہ ربا وہ مالی اضافہ ہے، جو صاحب مال مقروض کو قرضہ کی واپسی کے لیے مہلت دینے کے عوض وصول کیا جاتا ہے۔
ابن اثیر کا کہنا ہے کہ ربا کہ اصل معنی زیادتی کے ہیں اور شرعی اصطلاع میں اس سے مراد کسی معاہدہ بیع کے بغیر اصل زر میں اضافہ کرنا ہے۔ ابن عربیؒ کا کہنا ہے کہ ’لغوی معنوں میں ربا سے ہر وہ زیادتی مرادہے، جس کے عوض کوئی مال نہ ہو۔
علامہ ب رہان الدین المرغینانی کا کہنا ہے کہ ’قانون میں ربا معاہدہ قرض پر لازمی شرط کے طور پر کسی معاوضہ (مال) کے بغیر عائد کیا جائے۔“
امام فخر الدین رازی کہتے ہیں کہ ’لفظ ربا کے معنی زیادتی کے ہیں، تاہم اس سے مراد نہیں ہے کہ ہر قسم کی زیادتی پر ربا کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ حرام ہے۔ ربا کی ممانیت ایک خاص قسم کے معاہدہ سے
تعلق رکھتی ہے، وہ جو عربوں میں ”رباالنسیۃ“ (قرض پر ربا) کے نام سے مشہورتھا۔
الجصاصؒ کا کہنا ہے کہ ”ربا وہ قرض ہے جو خاص مدت کے لیے اس شرط کے تحت دیا جائے کہ مدت پوری ہونے پرمقروض کچھ اضافے کے ساتھ واپس کرے گا۔“
مولانا ابوعلیٰ مودودی نے سود کی حسب ذیل تعریف کی ہے۔ ”پس سودکی تعریف یہ قرار پائی کہ قرض میں دیے ہوئے راس المال پرجو زائد رقم مدت کے مقابلے میں شرط اور تعین کے ساتھ لی جائے سود ہے“۔
قانون عامہ میں کہا گیا ہے ”اصل قرض پر زیادتی یقیناً وہ عوض ہے، جو قرض دہندہ کسی خاص مدت کے لیے اپنی رقم دینے کے معاوضہ میں وصول کرتا ہے۔ اس کی حقیقت سے کوئی فرق نہیں پڑھتا ہے کہ اسے کھل کر سود نہ کہا گیا ہو۔
ہا لسبری کی کتاب میں سود کی تعریف اس طرح کی گئی ہے، ”سود پر جب رقم کے حوالہ سے غور کیا جائے تو یہ اس بدل یا معاوضہ کی واپسی کو ظاہر کرتا ہے، جو ایک فریق سرمائے کے استعمال کے عوض
دوسرے فریق کو ادا کرتا ہے“۔
جناب جسٹس تنزیل الرحمٰن مقدمہ سود کے فیصلے میں لکھتے ہیں، ”ان تعریفات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سود محض سادہ زیادتی کا نام نہیں ہے بلکہ شریعت میں یہ خاص زیادتی ہے، ورنہ ایک طرح کا
اضافہ تو بیع (فروخت)میں بھی ہوتا ہے، جسے اصطلاحاً منافع کہا جاتا ہے، جب کہ ربا وہ معاوضہ ہے جو ادائیگی کی مدت کے عوض ادا کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ مدت قیمتی مال کی شکل میں نہیں ہوتی ہے، اس لیے اس کی واپسی کو خلاف قانون قرار دیا گیا ہے، خواہ وہ سرمایا ہو یا کوئی اور چیز۔ بالفاظِ دیگر جب ایک طرف سرمایا ہو اور دوسری طرف رعایتی مدت یا قرض کی واپسی کو موخر کرنے کا مطالبہ، اس صورت میں جو ”منافع“ طے کیا کیاجائے، اسے ربا کہتے ہیں۔ تجارتی سرگرمیوں اور قرض کے لین دین کی ان مختلف صورتوں کے بغور مطالعہ سے جو حضورﷺ کے زمانے میں عربوں میں مروج تھیں پتہ چلتا ہے کہ ایسا لین دین جس میں راس المال پر زیادتی یا اضافہ، جو مدت کے حوالے سے ادا کیا جاتا تھا اور جس کی ادائیگی کی بابت پیشگی شرط طے کرلی جاتی تھی، ربا کہلاتا تھا۔ پس جس لین دین میں مذکور بالا عناصر پائے جائیں وہ ربا ہے اور اس طرح کی فروخت، لین دین یا قرض خوا وہ نقدی کی صورت میں ہو یا جنس کی شکل میں وہ ربا کا کاروبار ہے۔ جسے دار الاسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے اور اس پر مسلم فقہہاء کا اجماع ہے۔
ماخذ
جسٹس تنزیل الرحمنٰ شریعت کورٹ۔ مقدمہ سود اپریل 1991
مولانا ابو الا مودودی۔ سود