سورہ الحج
قرآن مجید کی 22 ویں سورت جو مختلف ادوار میں مکہ اور مدینہ دونوں میں نازل ہوئی۔
دور نزول | مدنی |
---|---|
زمانۂ نزول | ابتدائی مدنی دور |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 22 |
عددِ پارہ | 17 |
تعداد آیات | 78 |
الفاظ | 1,279 |
حروف | 5,196 |
نام
چوتھے رکوع کی دوسری آیت "و اذن فی الناس بالحج" سے ماخوذ ہے۔
زمانۂ نزول
مزید دیکھیے : الحج آیت 52 تا 55
اس سورہ میں مکی اور مدنی دونوں سورتوں کی خصوصیات ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے مفسرین میں اس امر پر اختلاف ہوا ہے کہ یہ مکی ہے یا مدنی لیکن اس کے مضامین اور اندازِ بیاں کا یہ رنگ اس وجہ سے ہے کہ اس کا ایک حصہ مکی دور کے آخر میں دوسرا مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوا ہے۔ اس لیے اس میں دونوں ادوار کی خصوصیات جمع ہو گئی ہیں۔
ابتدائی حصے کا مضمون اور اندازِ بیاں صاف بتاتا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوا ہے اور اغلب یہ ہے کہ مکی زندگی کے آخری دور میں ہجرت سے کچھ پہلے نازل ہوا۔ یہ حصہ آیت 24 پر ختم ہوتا ہے۔
اس کے بعد "ان الذین کفرو و یصدون عن سبیل اللہ" سے یک لخت مضمون کا رنگ بدل جاتا ہے اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر تک کا حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال ذی الحجہ میں نازل ہوا ہو کیونکہ آیت 25 سے 41 تک کا مضمون اسی بات کی نشان دہی کرتا ہے اور آیت 39 اور 40 کی شان نزول بھی اس کی موید ہے۔ اس وقت مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھر بار چھوڑ کے مدینے آئے تھے۔ حج کے زمانے میں ان کو اپنا شہر اور حج کا اجتماع یاد آ رہا ہوگا اور یہ بات بری طرح کھل رہی ہوگی کہ مشرکین قریش نے ان پر مسجد حرام کا راستہ تک بند کر دیا ہے۔ اس زمانے میں وہ اس بات کے بھی منتظر ہوں گے کہ جن ظالموں نے ان کو گھروں سے نکالا، مسجد حرام کی زیارت سے محروم کیا اور خدا کاراستہ اختیار کرنے پر ان کی زندگی تک دشوار کردی، ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت مل جائے۔ یہ ان آیات کے نزول کا ٹھیک نفسیاتی موقع تھا۔ ان میں پہلے تو حج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد حرام اس لیے بنائی گئی تھی اور یہ حج کا طریقہ اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ دنیا میں خدائے واحد کی بندگی کی جائے، مگر آج وہاں شرک ہو رہا ہے اور خدائے واحد کی بندگی کرنے والوں کے لیے اس کے راستے بند کردیے گئے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف جنگ کریں اور انھیں بے دخل کرکے ملک میں وہ نظامِ صالح قائم کریں جس میں برائیاں دبیں اور نیکیاں فروغ پائیں۔ ابن عباس، مجاہد، عروہ بن زبیر، زید بن اسلم، مقاتل بن عیان، قتادہ اور دوسرے اکابر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ہے۔ اور حدیث و سیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعد فوراً ہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کردی گئیں اور پہلی مہم صفر 2ھ میں ساحل بحیرہ احمر کی طرف روانہ ہوئی جو غزوۂ دوان یا غزوۂ ابواء کے نام سے مشہور ہے۔
موضوع و مبحث
اس سورت میں تین گروہ مخاطب ہیں : مشرکین مکہ، مذبذب اور متردد مسلمان اور مومنین صادقین۔
مشرکین سے خطاب کی ابتدائی مکے میں کی گئی اور مدینے میں اس کا سلسلہ پورا کیا گیا۔ اس خطاب میں ان کو پورے زور کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ تم نے ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے بے بنیاد جاہلانہ خیالات پر اصرار کیا،خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں پر اعتماد کیا جن کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے اور خدا کے رسول کو جھٹلا دیا۔ اب تمھارا انجام وہی کچھ ہو کر رہے گا جو تم سے پہلے اس روش پر چلنے والوں کا ہو چکا ہے۔ نبی کو جھٹلا کر اور اپنی قوم کے صالح ترین عنصر کو نشانۂ ستم بنا کر تم نے اپنا ہی کچھ بگاڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں خدا کا جو غضب تم پر نازل ہوگا اس سے تمھارے بناوٹی معبود تمھیں نہیں بچا سکیں گے۔ اس تنبیہ و انداز کے ساتھ افہام و تفہیم کا پہلو بالکل خالی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ پوری سورت میں جگہ جگہ تذکیر اور نصیحت بھی ہے اور شرک کے خلاف اور توحید و آخرت کے حق میں مؤثر دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں۔
مذبذب مسلمان، جو خدا کی بندگی تو قبول کر چکے ہیں مگر اس راہ میں کوئی خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے، ان کو خطاب کرتے ہوئے سخت سرزنش کی گئی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ یہ آخر کیسا ایمان ہے کہ راحت، مسرت، عیش نصیب ہو تو خدا تمھارا خدا اور تم اس کے بندے مگر جہاں خدا کی راہ میں مصیبت آئی اور سختیاں جھیلنی پڑیں، پھر نہ خدا تمھارا خدا رہا اور نہ تم اس کے بندے رہے۔ حالانکہ تم اپنی اس روش سے کسی ایسی مصیبت اور نقصان اور تکلیف کو نہیں ٹال سکتے جو خدا نے تمھارے نصیب میں لکھ دی ہو۔
اہل ایمان سے خطاب دو طریقوں پر کیا گیا ہے۔ ایک خطاب ایسا ہے جس میں وہ خود بھی مخاطب ہیں اور عرب کی رائے عام بھی اور دوسرے خطاب میں صرف اہل ایمان مخاطب ہیں۔
پہلے خطاب میں مشرکین مکہ کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے، حالانکہ مسجد حرام ان کی ذاتی جائداد نہیں ہے اور وہ کسی کو حج سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ اعتراض نہ صرف یہ کہ بجائے خود حق بجانب تھا، بلکہ سیاسی حیثیت سے یہ قریش کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بھی تھا۔ اس سے عرب کے تمام دوسرے قبائل کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا گیا کہ قریش حرم کے مجاور ہیں یا مالک؟ اگر آج اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر وہ ایک گروہ کو حج سے روک دیتے ہیں اور اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے تو کیا بعید ہے کہ کل جس سے بھی ان کے تعلقات خراب ہوں اس کو وہ حدود حرم میں داخل ہونے سے روک دیں اور اس کا عمرہ و حج بند کر دیں۔ اس سلسلے میں مسجد حرام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا کے حکم سے اس کو تعمیر کیا تھا تو سب لوگوں کو حج کا اذنِ عام دیا تھا اور وہاں اول روز سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق یکساں قرار دیے گئے تھے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ یہ گھر شرک کے لیے نہیں بلکہ خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا تھا، اب یہ کیا غضب ہے کہ وہاں ایک خدا کی بندگی تو ممنوع ہو لیکن بتوں کی پرستش کے لیے پوری آزادی۔
دوسرے خطاب میں مسلمانوں کو قریش کے ظلم کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت عطا کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب تمھیں اقتدار حاصل ہو تو تمھاری روش کیا ہونی چاہیے اور اپنی حکومت میں تم کو کس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ مضمون سورت کے وسط میں بھی ہے اور آخر میں بھی۔ آخر میں گروہِ اہلِ ایمان کے لیے "مسلم" کے نام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے اصل جانشیں تم لوگ ہو، تمھیں اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے کہ دنیا میں "شہادت علی الناس" کے مقام پر کھڑے ہو، اب تمھیں اقامتِ صلوٰۃ، زکوٰۃ اور فعل الخیرات سے اپنی زندگی کو بہترین نمونے کی زندگی بنانا چاہیے اور اللہ کے اعتماد پر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرنا چاہیے۔
اس موقع پر سورۂ بقرہ اور سورۂ انفال کے مضامین پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہوگی۔