سورہ الصافات

قرآن مجید کی 37 ویں سورت

قرآن مجید کی 37 ویں سورت، جس میں 5 رکوع اور 182 آیات ہیں۔ مکہ میں نازل ہوئی۔

  سورۃ 37 - قرآن  
سورة الصافات
Sūrat al-Ṣāffāt
سورت الصافات
----

عربی متن · audio speaker iconصوتی ·انگریزی ترجمہ


دور نزولمکی
دیگر نام (انگریزی)Drawn Up in Ranks, The Rangers
عددِ پارہ23 واں پارہ
اعداد و شمار5 رکوع, 182 آیات, 865 الفاظ, 3,790 حروف

نام

پہلی ہی آیت کے لفظ والصافات سے ماخوذ ہے

زمانۂ نزول

مضامین اور طرز کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت غالباً مکی دور کے وسط میں، بلکہ شاید اس دور متوسط کے بھی آخری زمانے میں نازل ہوئی ہے۔ انداز بیاں صاف بتا رہا ہے کہ پس منظر میں مخالفت پوری شدت کے ساتھ برپا ہے اور نبی و اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہایت دل شکن حالات سے سابقہ درپیش ہے۔

موضوع و مضامین

اس وقت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوتِ توحید و آخرت کا جواب جس تمسخر اور استہزاء کے ساتھ دیا جا رہا تھا اور آپ کے دعوائے رسالت کو تسلیم کرنے سے جس شدت کے ساتھ انکار کیا جا رہا تھا، اس پر کفار مکہ کو نہایت پر زور طریقے سے تنبیہ کی گئی ہے اور آخر میں انھیں صاف صاف خبردار کر دیا گیا ہے کہ عنقریب یہی پیغمبر، جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو، تمھارے دیکھتے دیکھتے تم پر غالب آجائے گا اور تم اللہ کے لشکر کو خود اپنے گھر کے صحن میں اترا پاؤ گے (آیات نمبر 171 تا 179) یہ نوٹس اس زمانے میں دیا گیا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کامیابی کے آثار دور دور تک نظر نہ آتے تھے۔ مسلمان (جن کو ان آیات میں اللہ کا لشکر کہا گیا ہے) بری طرح ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ ان کی تین چوتھائی تعداد ملک چھوڑ کر نکل گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ بمشکل 40 سے 50 صحابہ مکے میں رہ گئے تھے اور انتہائی بے بسی کے ساتھ ہر طرح کی زیادتیاں برداشت کر رہے تھے۔ ان حالات میں ظاہر اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ باور نہ کر سکتا تھا کہ غلبہ آخر کار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی مٹھی بھر بے سر و سامان جماعت کو نصیب ہوگا۔ بلکہ دیکھنے والے تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تحریک مکے کی گھاٹیوں ہی میں دفن ہو کر رہ جائے گی لیکن 15، 16 سال سے زیادہ مدت نہ گذری تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک وہی کچھ پیش آ گیا جس سے کفار کو خبردار کیا گیا تھا۔

تنبیہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالٰیٰ نے اس سورت میں تفہیم اور ترغیب کا حق بھی پورے توازن کے ساتھ ادا فرمایا ہے۔ توحید اور آخرت کے عقیدے کی صحت پر مختصر دل نشین دلائل دیے ہیں، مشرکین کے عقائد پر تنقید کر کے بتایا ہے کہ وہ کیسی لغو باتوں پر ایمان لائے بیٹھے ہیں، ان گمراہیوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ایمان و عمل صالح کے نتائج کس قدر شاندار ہیں۔ پھر اسی سلسلے میں پچھلی تاریخ کی مثالیں دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰیٰ کا اپنے انبیا کے ساتھ اور ان کی قوموں کے ساتھ کیا معاملہ رہا ہے۔ کس کس طرح اس نے اپنے وفادار بندوں کو نوازا ہے اور کس طرح ان کے جھٹلانے والوں کو سزا دی ہے۔

جو تاریخی قصے اس سورت میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سب سے زیادہ سبق آموز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کا یہ اہم واقعہ ہے کہ وہ اللہ تعالٰیٰ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ اس میں صرف کفار قریش ہی کے لیے سبق نہ تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اپنے نسبی تعلق پر فخر کرتے پھرتے تھے، بلکہ ان مسلمانوں کے لیے بھی سبق تھا جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے تھے۔ یہ واقعہ سنا کر انھیں بتا دیا گیا کہ اسلام کی حقیقت اور اس کی اصلی روح کیا ہے اور اسے اپنا دین بنا لینے کے بعد ایک مومن صادق کو کس طرح اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔

سورت کی آخری آیات محض کفار کے لیے تنبیہ ہی نہ تھیں بلکہ ان اہل ایمان کے لیے بشارت بھی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تائید و حمایت میں انتہائی حوصلہ شکن حالات کا مقابلہ کر رہے تھے۔ انھیں یہ آیات سنا کر خوشخبری دے دی گئی کہ آغازِ کار میں جن مصائب سے انھیں سابقہ پیش آ رہا ہے ان پر گھبرائیں نہیں، آخر کار غلبا انہی کو نصیب ہوگا اور باطل کے وہ علمبردار جو اس وقت غالب نظر آ رہے ہیں، انہی کے ہاتھوں مغلوب و مفتوح ہو کر رہیں گے۔ چند ہی سال بعد واقعات نے بتا دیا کہ یہ محض خالی تسلی نہ تھی بلکہ ایک ہونے والا واقعہ تھا جس کی پیشگی خبر دے کر ان کے دل مضبوط کیے گئے۔[1]،

حوالہ جات