سورہ فاطر
قرآن مجید کی 35 ویں سورت جو 22 ویں پارے میں ہے۔ رکوع کی تعداد 5 اور آیات کی تعداد 45 ہے۔
سورة فاطر Sūrat Fāṭir سورت فاطر | |
---|---|
----
| |
دور نزول | مکی |
متبادل نام (عربی) | سورة ﺍﻟملائكة |
دیگر نام (انگریزی) | The Angels, The Creator |
عددِ پارہ | 21, 22 واں پارہ |
اعداد و شمار | 5 رکوع, 45 آیات, 780 الفاظ, 3,159 حروف |
نام
پہلی آیت ہی میں لفظ "فاطر" اس سورت کا عنوان قرار دیا گیا ہے جس کے معنی صرف یہ ہیں کہ یہ وہ سورت ہے جس میں فاطر کا لفظ آیا ہے۔ دوسرا نام "الملائکہ" بھی ہے اور یہ لفظ بھی پہلی ہی آیت میں وارد ہوا ہے۔
زمانۂ نزول
انداز کلام کی اندرونی شہادت سے مترشح ہوتا ہے کہ اس سورت کے نزول کا زمانہ غالباً مکۂ معظمہ کا دور متوسط ہے اور اس کا بھی وہ حصہ جس میں مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی بری بری چالیں چلی جا رہی تھیں۔
موضوع اور مضمون
کلام کا مدعا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت توحید کے مقابلے میں جو رویہ اس وقت اہل مکہ اور ان کے سرداروں نے اختیار کر رکھا تھا اس پر ناصحانہ انداز میں ان کو تنبیہ و ملامت بھی کی جائے اور معلمانہ انداز میں فہمائش بھی۔ مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ نادانو! یہ نبی جس راہ کی طرف تم کو بلا رہا ہے، اس میں تمھارا اپنا بھلا ہے۔ اس پر تمھارا غصہ اور تمھاری مکاریاں اور چال بازیاں اور اس کو ناکام کرنے کے لیے تمھاری تدبیریں اس کے خلاف نہیں بلکہ تمھارے اپنے خلاف پڑ رہی ہیں۔ اس کی بات نہ مانو گے تو اپنا ہی کچھ بگاڑو گے، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے۔ وہ جو کچھ تم سے کہہ رہا ہے اس پر غور تو کرو، آخر اس میں غلط کیا بات ہے۔ وہ شرک کی تردید کرتا ہے۔ تم خود آنکھیں کھول کر دیکھو، کیا شرک کے لیے دنیا میں کوئی معقول بنیاد موجودہے؟ وہ توحید کی دعوت دیتا ہے، تم خود عقل سے کام لے کر غور کرو، کیا اللہ فاطر السمٰوات و الارض کے سوا کہیں کوئی ایسی ہستی پائی جاتی ہے جو خدائی صفات اور اختیارات رکھتی ہو؟ وہ تم سے کہتا ہے کہ تم اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہو بلکہ تمھیں اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جس میں ہر ایک کو اپنے کیے کا نتیجہ دیکھنا ہوگا۔ تم خود سوچو کہ اس پر تمھارے شبہات اور اچنبھے کس قدر بے اصل ہیں۔ کیا تمھاری آنکھیں رات دن اعادۂ خلق کا مشاہدہ نہیں کر رہی ہیں؟ پھر تمھارا ہی اعادہ اُس خدا کے لیے کیوں نا ممکن ہو جس نے تم کو ایک ذرا سے نطفے سے پیدا کر دیا۔ کیا تمھاری عقل یہ گواہی نہیں دیتی کہ بھلے اور برے کو یکساں نہ ہونا چاہیے؟ پھر تم ہی بتاؤ کہ معقول بات کیا ہے؟ یہ کہ بھلے اور برے کا انجام یکساں ہو، یعنی مٹی میں ملنا اور فنا ہو جانا؟ یا یہ کہ بھلے کو بھلا اور برے کو برا بدلہ ملے؟ اب اگر ان سراسر معقول اور مبنی بر حقیقت باتوں کو تم نہیں مانتے اور جھوٹے خداؤں کی بندگی نہیں چھوڑتے اور اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھتے ہوئے شتر بے مہار کی طرح دنیا میں جینا چاہتے ہو تو اس میں نبی کا کیا نقصان ہے۔ شامت تو تمھاری اپنی ہی آئے گی۔ نبی پر صرف سمجھانے کی ذمہ داری ہے اور وہ اس نے ادا کر دی۔
سلسلۂ کلام میں بار بار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے آپ جب نصیحت کا حق پوری طرح ادا کر رہے ہیں تو گمراہی پر اصرار کرنے والوں کے راہِ راست قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ کے اوپر عائد نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ آپ کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے ان کے رویے پر نہ آپ غمگین ہوں اور نہ نہیں راہ راست پر لانے کی فکر میں اپنی جان گھلائیں۔ اس کی بجائے آپ اپنی توجہات ان لوگوں پر صرف کریں جو بات سنے کے لیے تیار ہیں۔
ایمان قبول کرنے والوں کو بھی اسی سلسلے میں بڑی بشارتیں دی گئی ہیں تاکہ ان کے دل مضبوط ہوں اور وہ اللہ کے وعدوں پر اعتماد کر کے راہ حق میں ثابت قدم رہیں۔