النساء

قرآن کا سورہ نمبر 4 ہے
(سورۂ نساء سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی چوتھی سورت ہے۔ اس سورت کا موضوع امت مسلمہ کے لیے صالح معاشرت کی اساسات اور اس کا تزکیہ و تطہیر ہے۔

النساء
سورة النساء
فائل:Alnisaa.PNG
النساء
دور نزولمدنی
نام کے معنیعورت
زمانۂ نزول3،4 اور 5 ہجری
اعداد و شمار
عددِ سورت4
عددِ پارہ4،5،6
تعداد آیات176
الفاظ3,712
حروف15,937
گذشتہآل عمران
آئندہالمائدہ

زمانۂ نزول اور اجزاء مضمون

یہ سورت متعدد خطبوں پر مشتمل ہے جو غالباً 3ھ کے اواخر سے لے کر کے اواخر یا کے اوائل تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ کس مقام سے کس مقام تک آیات ایک سلسلۂ تقریر میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا ٹھیک زمانہ نزول کیا ہے لیکن بعض احکام اور واقعات کی طرف بعض اشارے ایسے ہیں جن کے نزول کی تاریخیں ہمیں روایات سے معلوم ہوجاتی ہیں اس لیے ان کی مدد سے ہم ان مختلف تقریروں کو ایک سرسری سی حد بندی کرسکتی ہیں جن میں یہ احکام اور یہ اشارے واقع ہوئے ہیں۔

مثلا ہمیں معلوم ہے کہ وراثت کی تقسیم اور یتیموں کے حقوق کے متعلق ہدایات جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ مسلمانوں کے 70 آدمی شہید ہو گئے تھے اور مدینے کی چھوٹی سی بستی میں اس حادثے کی وجہ سے بہت سے گھروں میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ شہداء کی میراث کس طرح تقسیم کی جائے اور جو یتیم بچے انھوں نے چھوڑے ہیں، ان کے مفاد کا تحفظ کیسے ہو۔ اس بنا پر ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ ابتدائی چار رکوع اور پانچویں رکوع کی پہلی تین آیتیں اسی زمانے میں نازل ہوئی ہوں گی۔

روایات میں صلٰوۃِ خوف (عین حالت جنگ میں نماز پڑھنے) کا ذکر ہمیں غزوۂ ذات الرقاع میں ملتا ہے جو 4ھ میں واقع ہوا۔ اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسی کے لگ بھگ زمانے میں وہ خطبہ نازل ہوا ہوگا جس میں اس نماز کی ترکیب بیان کی گئی ہے۔ (رکوع 15)

مدینے سے بنی نضیر کا اخراج ربیع الاول 4ھ میں ہوا اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ وہ خطبہ اس سے پہلے قریبی زمانے میں نازل ہوا ہوگا جس میں یہودیوں کو آخری تنبیہ کی گئی ہے کہ "ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیردیں "۔

پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کی اجازت غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر دی گئی تھی جو 5ھ میں ہوا اس لیے وہ خطبہ جس میں تیمم کا ذکر ہے اسی سے متصل عہد سمجھنا چاہیے (رکوع 7)۔

شان نزول اور مباحث

اس طرح بحیثیتِ مجموعی سورت کا زمانۂ نزول معلوم ہوجانے کے بعد ہمیں اس زمانے کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے تاکہ سورت کے مضامین سمجھنے میں اس سے مدد لی جاسکے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اس وقت جو کام تھا اسے تین بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : ایک اس نئی منظم اسلامی سوسائٹی کا نشو و نما جس کی بنا پر ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ اور اس کے اطراف و جوانب میں پڑچکی تھی اور جس میں جاہلیت کے پرانے طریقوں کو مٹا کر اخلاق، تمدن، معاشرت، معیشت اور تدبیر مملکت کے نئے اصول رائج کیے جا رہے تھے۔ دوسرے اس کشمکش کا مقابلہ جو مشرکین عرب، یہودی قبائل اور منافقین کی مخالفِ اصلاح طاقتوں کے ساتھ پوری شدت سے جاری تھی۔ تیسرے اسلام کی دعوت کو ان مزاحم طاقتوں کے علی الرغم پھیلانا اور مزید دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنا۔ اللہ تعالٰیٰ کی جانب سے اس موقع پر جتنے خطبے نازل کیے گئے وہ سب انہی تین شعبوں سے متعلق ہیں۔

اسلامی معاشرے کی تنظیم کے لیے سورۂ بقرہ میں جو ہدایات دی گئی تھیں، اب یہ معاشرہ ان سے زائد ہدایات کا طالب تھا، اس لیے سورۂ نساء کے ان خطبوں میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی کو اسلام کے طریق پر کس طرح درست کریں۔ خاندان کی تنظیم کے اصول بتائے گئے۔ نکاح پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ معاشرت میں عورت اور مرد کے تعلقات کی حد بندی کی گئی۔ یتیموں کے حقوق معین کیے گئے۔ وراثت کی تقسیم کا ضابطہ مقرر کیا گیا۔ معاشی معاملات کی درستی کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ خانگی جھگڑوں کی اصلاح کا طریقہ سکھایا گیا۔ تعزیری قانون کی بنا ڈالی گئی۔ شراب نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔ طہارت و پاکیزگی کے احکام دیے گئے۔ مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ایک صالح انسان کا طرز عمل خدا اور بندوں کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر جماعتی نظم و ضبط (ڈسپلن) قائم کرنے کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ اہل کتاب کے اخلاقی و مذہب رویے پر تبصرہ کرکے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ اپنی ان پیش رو امتوں کے نقش قدم پر چلنے سے پ رہی ز کریں۔ منافقین کے طرز عمل پر تنقید کرکے سچی ایماندی کے مقیضات واضح کیے گئے اور ایمان و نفاق کے امتیازی اوصاف کو بالکل نمایاں کرکے رکھ دیا گیا۔

مخالفِ اصلاح طاقتوں سے جو کشمکش برپا تھی اس نے جنگ احد کے بعد زیادہ نازک صورت اختیار کرلی۔ تھی۔ احد کی شکست نے اطراف و نواح کے مشرک قبائل، یہودی ہمسایوں اور گھر کے منافقوں کی ہمتیں بہت بڑھادی تھیں اور مسلمان ہر طرف خطرات میں گھر گئے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالٰیٰ نے ایک طرف پرجوش خطبوں کے ذریعے سے مسلمانوں کو مقابلے کے لیے ابھارا اور دوسری طرف جنگی حالات میں کام کرنے کے لیے انھیں مختلف ضروری ہدایات دیں۔ مدینے میں منافق اور ضعیف الایمان لوگ ہر قسم کی خوفناک خبریں اڑا کر بدحواسی پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حکم دیا گیا کہ ہر ایسی خبر ذمہ دار لوگوں تک پہنچائی جائے اور جب تک وہ کسی خبر کی تحقیق نہ کر لیں اس کی اشاعت کو روکا جائے۔ مسلمانوں کو بار بار غزوات اور سریوں میں جانا پڑتا تھا اور اکثر ایسے راستوں سے گذرنا ہوتا تھا جہاں پانی فراہم نہ ہو سکتا تھا۔ اجازت دی گئی کہ پانی نہ ملے تو غسل اور وضو دونوں کی بجائے تیمم کر لیا جائے۔ نیز ایسے حالات میں نماز مختصر کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی اور جہاں خطرہ سر پر ہو وہاں صلٰوۃِ خوف ادا کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ عرب کے مختلف علاقوں میں جو مسلمان کافر قبیلوں کے درمیان منتشر تھے اور بسا اوقات جنگ کی لپیٹ میں بھی آجاتے تھے ان کا معاملہ مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھا۔ اس مسئلے میں ایک طرف اسلامی جماعت کو تفصیلی ہدایات دی گئیں اور دوسری طرف ان مسلمانوں کو بھی ہجرت پر ابھارا گیا تاکہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر دارالاسلام میں آجائیں۔

یہودیوں میں سے بنی نضیر کا رویہ خصوصیت کے ساتھ نہایت معاندانہ ہو گیا تھا اور وہ معاہدات کی صریح خلاف ورزی کرکے کھلم کھلا دشمنانِ اسلام کا ساتھ دے رہے تھے اور خود مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی جماعت کے خلاف سازشوں کے جال بچھا رہے تھے۔ ان کی اس روش پر سخت گرفت کی گئی اور انھیں صاف الفاظ میں آخری تنبیہ کردی گئی۔ اس کے بعد ہی مدینہ سے ان کا اخراج عمل میں آیا۔

منافقین کے مختلف گروہ مختلف طرزِ عمل رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس قسم کے منافقوں سے کیا معاملہ کریں۔ ان سب کو الگ الگ طبقوں میں تقسیم کرکے ہر طبقہ کے منافقوں کے متعلق بتادیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتاؤ ہونا چاہیے۔

غیر جانبدار معاہد قبائل کے ساتھ جو رویہ مسلمانوں کا ہونا چاہیے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔

سب سے زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ مسلمان کا اپنا کردار بے داغ ہو کیونکہ اس کشمکش میں یہ مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تو اپنے اخلاقِ فاضلہ ہی کے زور سے جیت سکتی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو بلند ترین اخلاقیات کی تعلیم دی گئی اور جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر سخت گرفت کی گئی۔

دعوت و تبلیغ کا پہلو اس سورت میں چھوٹنے نہیں پایا ہے۔ جاہلیت کے مقابلے میں اسلام جس اخلاقی و تمدنی اصلاح کی طرف دنیا کو بلا رہا تھا، اس کی توضیح کرنے کے علاوہ یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکین، تینوں گروہوں کے غلط مذہبی تصورات اور غلط اخلاق و اعمال پر اس سورت میں تنقید کرکے ان کو دین حق کی طرف دعوت دی گئی ہے۔