سونگ خاندان کے دور حکومت میں اسلام

تانگ خاندان کے زوال کے بعد 907ء میں سونگ خاندان برسر اِقتدار آیا اور اِس خاندان کے عہدہائے حکمرانی میں چین میں مسلمان بڑے عہدوں پر فائز ہوئے اور مسلم آبادیاں چینی مقبوضات اور چینی صوبوں میں مستقل آباد ہوئیں۔

سونگ خاندان میں مسلمان آبادیوں کے نقوش

ترمیم

907ء میں تانگ خاندان کی سلطنت ختم ہو گئی تو سونگ خاندان برسر اِقتدار آیا۔ تانگ خاندان کے عہد میں تبلیغ اسلام اپنے عروج پر رہی اور مختلف قبائل نے اسلام قبول کرکے چینی علاقوں اور صوبوں میں آبادیاں قائم کیں۔ سونگ خاندان کے دوسرے حکمران شہنشاہ تائی ژونگ (دور حکومت: 976ء تا 997ء) کے زمانہ ٔ حکومت میں کاشغر کے حاکم بغرا خان نے چینی ترکستان پر لشکرکشی کردی، کیونکہ بغرا خان والی ٔ خراسان کے ماتحت تھا اور اِس لشکرکشی کے بعد بغرا خان نے چینی ترکستان کو اپنے ماتحت کر لیا اور وہاں کے باشندوں کو غلام بنا لیا اور شمال و جنوب میں ’’یتان و شان‘‘ کو اُن کی سکونت کے لیے مقرر کر دیا، چونکہ اُن میں سے اکثر مسلمان تھے، اِس لیے اُن کو آزاد کر دیا اور اُن کو یہ اختیار دِیا گیا کہ جہاں اُن کا جِی چاہے، وہ وہاں مقیم ہو سکتے ہیں۔ آج چینی ترکستان اور کانسو میں ایک مسلم قبیلہ ’’جوتون گان دل‘‘ (دونغان) کے نام سے مشہور ۔ موجودہ لوگوں کا بیان ہے کہ یہ قبیلہ اُن لوگوں کی اولاد ہے جن کو بغرا خان نے 976ء سے 987ء کے زمانہ میں قید کر دیا تھا۔[1] 1068ء میں صفر خان حاکم بخارا نے جو غز ترک قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا، چین کے دار الحکومت آیا اور شہنشاہ چین سے ملاقات کی جس کی وجہ سے حکمران چین اور مسلمانوں کے تعلقات مضبوط ہوئے۔ سونگ خاندان کے چوتھے حکمران رین ژونگ نے اُس کا شاندار استقبال کیا اور دربارِ چین میں اُس کو خاص مہمان کی حیثیت سے رکھا اور اُن کی دوستی و تعلقات ایسے بندھے کہ بعد میں کشیدہ نہیں ہوئے۔[2]

صفر خان کے دو بیٹے تھے: ایک کا نام میسری اور دوسرا سیف الدین تھا۔ شہنشاہ چین رین ژونگ نے میسری کو ریاست لُو کا حاکم مقرر کر دیا اور اُس کو لوکواکون یعنی امیر ریاستِ لُو کا خطاب دیا اور سیف الدین کو چُوجِنگ یعنی صاحب البرکہ والکرامہ کا خطاب تفویض کیا۔ سیف الدین کا ایک بیٹا جو شمس شاہ کے نام سے مشہو تھا، کو محافظ تاتارون کا خطاب دیا گیا۔ شمس شاہ کی اولاد میں سے ایک کا نام کمال الدین تھا، سونگ خاندان کے دسویں حکمران شہنشاہ گاؤژونگ سونگ نے اُس کو امیرالفوج مقرر کیا اور کمال الدین کے فرزند محمود کو ریاست جیون جونگ کا حاکم مقرر کیا اور محمود کو اُس ریاست کا حاکم بنانے کی وجہ یہ تھی کہ اُس زمانے میں جنوب مغربی چین میں ایک قبیلہ ’’کُن‘‘ کا ظہور ہوا تھا اور یہ قبیلہ چین کے مغربی سرحد پر برابر حملہ اور یورش کرتا رہتا تھا اور شہنشاہ چین کو خوب معلوم تھا کہ صرف مسلم حاکم ہی اِن سرکشوں کو درست کرسکتے ہیں، چنانچہ محمود کو ریاست جیون چونگ کا حاکم بنایا اور اُس کو حکم دِیا کہ اِن سرکشوں کی قوت توڑنے کی تدبیر کرے اور محمود نے یہ حکم پاتے ہی ایک ہزار سوار کا لشکر تیار کر لیا اور قبیلہ کُن کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا اور لشکر سمیت مغربی چین کی جانب پہنچا۔ قبیلہ کُن پر حملہ کیا اور فتح پائی۔ واپس دار الحکومت آیا اور دربارِ چین میں حاضر ہوا اور خود شہنشاہ سے جنگی واقعات بیان کیے۔ شہنشاہ نے اُسے ہان یان (صوبہ شانسی) کا حاکم مقرر کیا۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. بدرالدین چینی: چینی مسلمان، صفحہ 22۔ مطبوعہ اعظم گڑھ، 1935ء
  2. بدرالدین چینی: چینی مسلمان، صفحہ 23۔ مطبوعہ اعظم گڑھ، 1935ء
  3. بدرالدین چینی: چینی مسلمان، صفحہ 24۔ مطبوعہ اعظم گڑھ، 1935ء

مزید دیکھیے

ترمیم