سیاچن گلیشیر
سیاچن گلیشیئر ہمالیہ میں مشرقی کاراکرم رینج میں واقع ایک گلیشیر ہے ، جو پوائنٹ این جے 9884 کے بالکل شمال مشرق میں ہے جہاں ہندوستان اور پاکستان کے مابین لائن آف کنٹرول ختم ہوتا ہے۔76 کلومیٹر (47 میل) لمبا پر ، یہ قراقرم کا سب سے لمبا اور دنیا کے غیر قطبی علاقوں میں دوسرا لمبا گلیشیر ہے۔
سیاچن گلیشیر | |
---|---|
Satellite imagery of the Siachen Glacier | |
قسم | پہاڑی گلیشیر |
مقام | لداخ، Controlled by ہندوستان, (disputed by پاکستان) |
متناسقات | 35°25′16″N 77°06′34″E / 35.421226°N 77.109540°E |
لمبائی | 76 کلومیٹر (249,000 فٹ) using the longest route as is done when determining river lengths or 70 کلومیٹر (230,000 فٹ) if measuring from Indira Col[1] |
سارا سیاچن گلیشیر ، جس میں تمام بڑے راستے ہیں ، سنہ since 1984 (since سے ہندوستان کے زیر انتظام (موجودہ وقت میں خطے کے خطے میں واقع لداخ کے مرکزی علاقہ کے ایک حصے کے طور پر) زیر انتظام ہیں۔
پاکستان سیاچن گلیشیر پر علاقائی دعویٰ برقرار رکھتا ہے اور گلیشیر کے مغرب میں واقع سالٹوورو رج کے مغرب میں اس خطے کو کنٹرول کرتا ہے۔پاکستانی خطوط رجز پر 100 سے زیادہ ہندوستانی پوسٹوں سے 3،000 فٹ نیچے واقع ہیں۔
سیاچن تنازع
ترمیمسیاچن حقیقتا پاکستان کا حصہ ہے اور دنیا کے تمام نقشوں میں اسے پاکستانی علاقے میں دکھایا گیا ہے لیکن 1984 میں انڈیا کی فوج نے اس پر قبضہ کیا تھا جس کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان رابطے کو کاٹنا تھا۔
سیاچن پر بھارت نے 1984ء میں قبضہ کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس بلند ترین جگہ سے بھارت کا قبضہ ختم کرانے کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے درمیان میں کئی مرتبہ بات چیت ہو چکی ہے جس میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی شامل ہے، لیکن ہنوز اس تنازع کا کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے مابین سن 1984. 1999 and اور 1999 کے درمیان ، اکثر جھڑپیں ہوتی رہیں۔ آپریشن میگدوت کے تحت ہندوستانی فوجیوں نے سیاچن گلیشیر کے مغرب میں سالٹو رِج پر بیشتر بالادستی کی بلندیوں پر قبضہ کرنے کے لیے صرف ایک دن کے بعد پاکستان کے آپریشن ابیبل کو خالی کر دیا۔ تاہم ، جنگ کے مقابلے میں خطے میں سخت موسمی صورت حال سے زیادہ فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے 2003 اور 2010 کے درمیان سیاچن کے قریب ریکارڈ کی گئی مختلف کارروائیوں میں 353 فوجیوں کو کھو دیا تھا ، جن میں 2012 گیری سیکٹر میں برفانی تودے میں مارے جانے والے 140 پاکستانی اہلکار بھی شامل تھے۔[2]
سیاچن گلیشیئر پر گرمیوں میں بھی درجہ حرارت منفی دس کے قریب رہتا ہے۔ جبکہ سردیو ں میں منفی پچاس ڈگری تک جاپہنچاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں سال بھر کسی قسم کی زندگی کے پنپنے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ جو فوجی وہاں تعینات ہوتے ہیں ان کے لیے اس درجہ حرارت پر کھانا پینا ہی نہیں سانس لینا تک ایک انتہائی دشوار کام ہے۔ سردی کی شدت کی بنا پر فوجیوں کی اموات اور ان کے اعضاء کا ناکارہ ہو جانا ایک معمول کی بات ہے۔
اس بلند ترین جنگی محاذ پر پاکستان کے سپوت بے مثال جرات کا مظاہرہ کر کے جہاں بھارت کی جارحیت کو روکے ہوئے ہیں، وہیں وہ بے رحم موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر رہے ہیں۔ اب تک پاکستان کے سینکڑوں سپاہیوں نے اس محاذ پر بھارتی قبضے کو روکنے اور سخت ترین سردی، برفانی تودوں اور ہواؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے۔
سیاچن کے محاذ پر صرف پاکستان کا ہی نقصان نہیں ہو رہا بلکہ بھارتی فوجی بھی مارے جا رہے ہیں۔ ہر سال جنگی محاذ پر بھارت 10 ارب روپے خرچ کر رہا ہے جبکہ پاکستان پر بھی اس کی وجہ سے مالی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس طرح دونوں ممالک اس جگہ بے مصرف جنگ پر اپنے مالی و جانی وسائل صرف کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس جنگی ساز و سامان اور اس کے استعمال سے ماحول پر مہلک اثرات پڑ رہے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دونوں طرف سے فوجی کارروائیوں کی وجہ سے اس جگہ آبی حیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ نشیب میں واقع درختوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ گلیشیئر بڑی تیزی کے ساتھ پگھل رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں سیلاب تواتر کے ساتھ آ رہے ہیں۔ بھارت کے بعض علاقے بھی زیادہ تیزی سے برف پگھلنے کی صورت میں سیلاب کی زد میں آ چکے ہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیم- سانحہ سیاچن
- گلگت بلتستان7 اپریل 2012 کا دن سانحہ بن کر طلوع ہوا، سیاچن گلیشیئر پر ناردرن لائن انفنٹری بٹالین کی کمانڈ لیفٹیننٹ کرنل تنویر کر رہے تھے جبکہ ان کے ہمراہ میجر ذکاء بھی موجود تھے کہ گیاری سیکٹر میں ناردرن لائٹ انفنٹری کے بٹالین ہیڈکوارٹر پر برفانی تودا آن گرا، برفانی تودے نے تقریباً ایک کلو میٹر کے علاقے کو متاثر کیا۔
سانحہ گیاری کے بعد ہونے والا تاریخی آپریشن ہمیشہ عزم وہمت کی شاندار مثال رہے گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری اس جنگ میں انسانوں کا مقابلہ انسانوں سے کم اور سخت موسم سے زیادہ ہوتا ہے۔(تحریر صحافی بہادر شاہ ظفر استوری)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Dinesh Kumar (13 اپریل 2014)۔ "30 Years of the World's Coldest War"۔ چندی گڑھ: دی ٹریبیون۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2014
- ↑ "'سیاچن کا تنازع ایک غلطی': لاحاصل جنگ اور جنگلی گلابوں کی سرزمین"
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر سیاچن گلیشیر سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |