سیدو شریف، سوات، خیبر پختونخوا, پاکستان کا ایک سیاحتی مقام ہے اور یہ وادی 3081 فٹ کی اونچائی پر واقع ہے۔


سيدو شريف
قصبہ
ملک پاکستان
صوبہخیبر پختونخوا
ضلعضلع سوات
بلندی970 میل (3,180 فٹ)

سیدو شریف سوات کا جدید ترین شہر ہے جو منگورہ سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیدو شریف منگورہ کے ساتھ کچھ اس طرح سے جڑا ہوا ہے کہ دونوں کا تعین کرنا بہت مشکل ہے بلکہ منگورہ اور سیدو شریف بالکل دو جڑواں شہر معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم منگورہ کا خوب صورت اور کشادہ گراسی گراؤنڈ دونوں شہروں کے مابین مرکزِ اتصال تصور کیا جا سکتا ہے۔

1957ء میں جب پہلی دفعہ وادی سوات میں بلدیہ وجود میں لائی گئی تو منگورہ اور سیدو شریف دونوں کو ایک ہی بلدیہ کی حدود میں رکھاگیا جس کے بعد دونوں شہروں کا نظم و نسق، تزئین و آرائش اور صفائی کا سارا انتظام بلدیہ ہی انجام دیتی آ رہی ہے۔

ریاستِ سوات کے پاکستان میں ادغام کے بعد سیدو شریف کو ملاکنڈ ڈویژن کے صدر مقام کی حیثیت بھی دی گئی جس میں سوات، بونیر، شانگلہ، دیر اور چترال کے اضلاع کے علاوہ ملاکنڈ ایجنسی کے علاقے بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے سیدو شریف کی گہما گہمی اور رونق میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی مرکزی حیثیت کے باعث ضلع سوات کے تمام محکموں کے دفاتر بھی سیدو شریف ہی میں قائم کیے گئے ہیں۔

منگورہ اور سیدو شریف میں آمد و رفت کا مقبول ذریعہ سوزوکی اور رکشے ہیں۔ سوزوکی دو روپیہ اور رکشہ تین روپیہ کے کرایہ فی سواری یک طرفہ کے عوض آپ کو لے جا اور لا سکتے ہیں۔ رکشے میں عموماً پانچ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں ، تاہم پندرہ روپے میں رکشہ بُک کروا کر آپ خصوصی طور پر علاحدہ بھی منگورہ سے سیدو شریف تک دو تین کلومیٹر پر محیط پُر کشش مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

سیدو شریف ایک بہت قدیم اور تاریخی شہر ہے جس نے زمانے کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ جس طرح سیدو شریف آج ملاکنڈ ڈویژن کا صدر مقام ہے،اسی طرح پُرانے زمانے میں بھی اُسے مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اور اس زمانے میں بھی یہ شہر تہذیبی، ثقافتی اور جدید ترقی کے لحاظ سے بہت آگے تھا۔ ریاستِ سوات کے آخری حکمران کا محل بھی یہیں ہے۔

بُدھ مت کے دور میں سیدو شریف کا پُرانا نام ’’بالی گرام‘‘ (اس نام کا ایک چھوٹا سا درہ آج بھی سیدو شریف کے قرب میں واقع ہے) تھا جس کے بعد یہ سادوگان کے نام سے مشہور ہوا۔ پشتو زبان میں لفظ سادوگان ’’سادھو‘‘ کی جمع ہے۔ عہدِ قدیم میں یہاں بُدھ مت کے پیروکار بڑی تعداد میں آباد تھے جو یہاں غاروں میں عبادت کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اُس کا نام ’’سادوگان‘‘ پڑ گیا جو بعد میں ’’سیدو‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔

1845ء میں مشہور روحانی شخصیت اخوند صاحبِ سوات( عبد الغفور عرف سیدوبابا) جب سوات کے ’’سپل بانڈئ‘‘ نامی گاؤں کو خیر باد کہہ کر ہمیشہ کے لیے سیدو چلے آئے تو اس وقت سیدو کی عظمتِ رفتہ کے نقوش ماند پڑ چکے تھے اور یہ ایک چھوٹا سا معمولی گاؤں تھا لیکن جب عبد الغفور اخوند صاحبِ سوات نے اس کو اپنی مستقل رہائش کے لیے منتخب کیا اور اس میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی تو اس کی گذشتہ عظمت دوبارہ لوٹ آئی اور اس کی شہرت اخوند صاحبِ سوات (سیدوبابا) کی وجہ سے دور دراز تک پھیل گئی۔ ان کی وجہ سے سیدو، سیدو شریف بن گیا اور لوگ اس جگہ کو مقدس سمجھنے لگے۔ اُن کے دورِ سکونت میں سیدو شریف کوبڑا مذہبی رعب داب حاصل تھا۔ ان کا مزار اب سیدو شریف ہی میں ہے جو مرجع خلائقِ عام ہے۔

عبد الغفورؒ(سیدوبابا) کے فرزند کشر میاں گل عبد الخالق کے زمانے میں اس شہر کو مذہبی اور سیاسی دونوں حیثیتیں حاصل ہو گئیں۔ان دونوں کی وفات کے بعد سیدو شریف کی عظمت اور شوکت بھی ختم ہو گئی لیکن بعد میں 1915ء میں سیدو غوث عبد الغفور کے پوتے اور کشر میاں گل عبد الخالق کے بیٹے اعلیٰ حضرت میاں گل، گل شہزادہ عبد الودود نے سوات کی عنانِ سلطنت سنبھالی تو سیدو شریف کی وہی پرانی عظمت اور شوکت پھر لوٹ آئی۔ انھوں نے سیدو شریف کو ریاستِ سوات کے دار الحکومت کا درجہ دے دیا اور اس طرح اس کی پرانی شہرت و عظمت بحال ہو گئی۔

سیدو شریف گیرا پہاڑ کے مشرقی دامن میں واقع ہے۔ اس کے مغرب کی طرف ایک ندی بہہ رہی ہے جس کا منبع’’ وادی مرغزار‘‘ کے پہاڑ اور چشمے ہیں۔ سیدو شریف کے تینوں جانب پہاڑ اور شمالی سمت میدان ہے۔ یہ مقام سطح سمندر سے 3500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور یہاں سے سوات کی تمام اطراف کو سڑکیں جاتی ہیں۔ اس سے ایک ذیلی سڑک ندی کے ساتھ ساتھ ’’مرغزار‘‘ کی حسین وادی تک لے جاتی ہے۔ سڑک کے دائیں جانب پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں جو وادی سیدو شریف کو ’’اوڈی گرام‘‘ (سوات کا ایک مشہور تاریخی گاؤں ) سے علاحدہ کرتی ہیں۔ اس سے آگے ’’راجا گیرا‘‘ کے قلعہ کے قدیم آثار نظر آتے ہیں جو گیرا پہاڑ کے مغربی جانب کھنڈر کی شکل میں اوڈی گرام کے عین سامنے واقع ہیں۔ یہاں سے اوڈی گرام تک ہائنکنگ بھی کی جا سکتی ہے۔

متعلقہ ترمیم