سید احمد نبی
سید احمد نبی نقشبندی کا شمار سلسہ نقشبندیہ کے اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ کے چورہ شریف کے عظیم خانقاہ کے سجادہ نشین تھے۔
سید احمد نبی نقشبندی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | (1280ھ یا 1282ھ) تیراہی افغانستان |
وفات | (بروز جمعہ 5 شوال 1345ھ) وسن پورہ لاہور |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
سلسلہ | نقشبندیہ |
مرتبہ | |
مقام | چورہ شریف تحصیل جنڈ اٹک |
پیشرو | فقیر محمد چوراہی |
ولادت
ترمیمسید احمد نبی شاہ کی ولادت 1280ھ یا 1282ھ میں خواجہ فقیر محمد چورہی کے گھر تیراہی افغانستان میں ہوئی۔
بیعت و خلافت
ترمیمسید احمد نبی کی تمام روحانی تعلیم و تربیت آپ کے والد ماجد حضرت خواجہ فقیر محمد چوراہی نے ہی مکمل کی۔ آپ اپنے والد گرامی کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف تھے اور انہی سے خرقہ خلافت اور اجازت بیعت سے مشرف ہوکر اپنے والد کے جانشین ہوئے۔
وسن پورہ لاہور میں قیام
ترمیمسید احمد نبی عالم شباب میں تھے کہ آپ کے والد گرامی خواجہ فقیر محمد چوراہی کا وصال باکمال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ چورہ شر یف سے ہجرت کر کے لاہور شہر سے باہر ایک ویران علاقہ میں آ کر قیام پزیر ہو گئے۔ اسی ویران علاقہ میں آپ کی آمد کی بدولت بہت جلد آبادی ہو گئی۔ جس جگہ پر آپ نے قیام کیا وہ جگہ ایک زمیندار بابا وسن کی ملکیت تھی جو آباد ہونے کے بعد بابا وسن کے نام پر وسن پورہ کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔ بابا وسن آپ کا دلی عقیدت مند اور متقی پرہیز گار بزرگ تھے۔ پہلے پہلے آپ ایک تھڑے پر نماز ادا فرماتے تھے۔ بعد ازاں آپ نے اس جگہ باقاعدہ ایک عالی شان مسجد تعمیر کرا دی جو آج بھی مسجد پیراں والی کے نام سے معروف ہے اور آپ کے تعمیر کا شاہکار ہے۔ آپ کا قیام زیادہ تر اپنے حجرے میں ہوا کرتا تھا اور بوقت نماز مسجد میں قیام ہوتا تھا۔ جس جگہ آپ کی قیام گاہ تھی وہ جگہ آج بھی لاہور وسن پورہ میں پیراں والی چوک کے نام سے مشہور ہے۔ آپ نے تمام زندگی قریہ قریہ تشریف لے جا کر شریعت مقدس کی تلقین و تبلیغ فرمائی۔ آپ کے مریدین کا حلقہ احباب کابل افغانستان ، جموں کشمیر، بلوچستان ،سندھ، امرتسر بمبئی، دہلی اور اجمیر شریف تک پھیلا ہوا ہے۔
سیرت و کردار
ترمیمخواجہ احمد نبی انتہائی نیک، متقی، پرہیز گار، نیک سیرت اور باکردار بلند اخلاق کے مالک تھے۔ لباس، اقوال و افعال و اعمال میں سنت مبارکہ کا عکس جمیل نظر آتا تھا۔ شانوں تک زلفیں تھیں اسی وجہ سے آپ کو زلفاں والی سرکار کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ آپ کا دستر خوان صبح و شام کھلا رہتا تھا۔ مہمان نوازی زمانے میں مشہور تھی ۔ سخاوت کا عالم یہ تھا کہ آنے والا بھی کبھی کوئی سوالی خالی نہ گیا۔ آپ مہمانوں کا خصومی احترام فرماتے اور اپنے پاس آنے والوں کو یکساں دیکھتے تھے۔ اتفاقا اگر کوئی دوست کسی مہمان کو ناپسندیدگی سے دیکھتا تو آپ سختی سے منع فرمایا کرتے اور فرماتے کہ الله تعالی کے حضور میں علاقائی اور لسانی کوئی فرق نہیں ہے وہاں تو اعمال کا فرق ہے۔ سب مسلمان ایک تسبیح کے دانے ہیں۔ آپ اپنے احباب کو یہی تلقین فرماتے کہ بچوں کو دنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تعلیم بھی دلوائیں۔ آپ فرماتے تھے کہ آپ صبح خود اٹھو تا کہ بچے بھی صبح اٹھنے کے عادی بنیں اور تم پر خدا کی رحمتوں کا نزول ہو۔
مجدد الف ثانی سے محبت
ترمیمسید احمد نبی سفر بہت کم فرماتے تھے لیکن جتنی دیر سفر میں رہتے کئی غیر مسلم آپ کا روئے تاباں دیکھ کر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے تھے۔ آپ زیادہ تر سفر کشمیر کے علاقہ میں فرماتے اور فرماتے کہ اس علاقے کے سفر میں سکون ملتا ہے۔ عام طور پر پاپیادہ سفر کرتے تھے اور تھکاوٹ کی صورت میں گھوڑی پر سوار ہو جاتے تھے۔ آپ کے ساتھ سفر میں عقیدت مند دس دس گھوڑیاں ہمراہ رکھتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ ہر سال ایک گھوڑی نکال کر حضرت مجد الف ثانی کے دربار سرہند شریف نذرانہ پیش کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص مجدد الف ثانی کا واسطہ پیش کر کے کچھ عرض کرتا تو آپ کا دل موم کی طرح نرم ہو جاتا اور وہی چیز عطا کر دیتے۔
وصال
ترمیمسید احمد نبی کا وصال 5 شوال 1345ھ بروز جمعۃ المبارک کو وسن پوره لاہور میں ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ علامہ مولانا سید دیدار علی شاہ بانی دار العلوم حزب الاحناف لاہور نے پڑھائی۔ آپ نے فرمایا کہ میری آنکھوں نے آج تک لاہور میں اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا جتنا کہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر آپ کے وصال والے دن دیکھا۔ بعد ازاں آپ کو لاہور سے چورا شریف لایا گیا۔ جہاں آپ کی نماز جنازہ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے پڑھائی۔ آپ کا مزار چورہ شریف تحصیل جنڈ ضلع اٹک میں مرجع خاص و عام ہے جہاں ہر سال آپ کا سالان عرس نہایت عقیدت واحترام سے منایا جاتا ہے۔ آپ کے دربارکے سجادہ نشین مبلغ یورپ الحاج پیر سید محمد کبیرعلی شاہ ہے۔ [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 512 تا 516