سید رضی الدین، علی بن موسی بن جعفر بن طاؤس، (589۔664 ھ) سید بن طاؤس کے نام سے مشہور، چھٹی و ساتویں ہجری کے شیعہ عالم ہیں۔ المہمات و التتمات، کشف المحجہ لثمرة المہجة، مصباح الزائر و جناح المسافر، لہوف، مہج الدعوات اور منہج العبادات جیسی کتابوں کے مصنف ہیں۔ سید بن طاؤس امام حسن مجتبی و امام سجاد کے نواسوں میں سے ہیں۔ علامہ حلی اور ان کے والد ماجد شیخ یوسف سدید الدین جیسے بزرگان کے استاد رہے ہیں۔

سید ابن طاووس
فائل:سر در مرقد سید بن طاووس.jpeg
آپ کے مزار کا مین گیٹ
کوائف
مکمل نامسید رضی الدین، علی بن موسی بن جعفر بن طاووس
نسبحسنی سادات
تاریخ ولادت15 محرم 589 ھ
آبائی شہرحلہ
تاریخ وفات5 ذی القعدہ 664 ھ
مدفنحلہ، عراق
نامور اقرباءآل طاووس • احمد بن طاووس
علمی معلومات
اساتذہان کے والد: موسی بن جعفر حلی • ان کے جد: ورام بن ابی فراس حلی • ابن نما حلی • فخار بن معد موسوی
شاگردسدید الدین حلی • علامہ حلی • حسن بن داوود حلی
تالیفاتاقبال الاعمالمہج الدعواتاللہوف و ...
خدمات
سماجینقابت سادات •

سید بن طاؤس نے عباسیوں کے دور حکومت میں نقابت کا منصب قبول نہیں کیا لیکن ہلاکو خان کے زمانے میں شیعوں کے نقیب[1] رہے ہیں۔ آپ اپنی اخلاقی خوبیوں، تقوا اور پرہیزگاری، عرفانی کمالات اور کرامتوں کی وجہ سے جمال العارفین[2] کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔

ولادت اور وفات ترمیم

ابو القاسم علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن طاؤس حلّی، لقب رضی الدین سنہ 589 ہجری کے ماہ محرم الحرام کی 15 تاریخ کو جمعرات کے دن عراق کے شہر حلّہ میں متولد ہوئے۔[3] اپنی عمر کے آخری حصے میں اپنے آبائی مقام حلہ واپس لوٹ آئے اور 664 ھ پانچ ذیقعد پیر کے دن 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ وصیت کے مطابق ان کا جسد نجف اشرف لے جا کر حرم امیر المومنین (ع) میں دفن کیا گیا ۔

نسب ترمیم

سید بن طاؤس کا نسب تیرہویں پشت میں امام حسن مجتبی سے ملتا ہے۔ ابن طاؤس کے نام سے مشہور ہونے کی علت یہ تھی کہ آپ کے اجداد میں سے ایک یعنی ابو عبد اللہ احمد بن محمد نہایت ہی خوبصورت چہرے کے مالک تھے لیکن ان کے پاؤں طاؤس[4] کی طرح چہرے کے ساتھ متناسب نہیں تھے اس لیے آپ ابن طاؤس کے نام سے مشہور ہوئے۔[5]

آپ کے والد ماجد موسی بن جعفر نیز بلند پائے کے راویوں میں سے تھے جنھوں نے اپنی روایات کو کاغذوں پر لکھا تھا جنہیں بعد میں ان کے بیٹے یعنی سید بن طاؤس نے جمع کرکے فرقه الناظر و بہجه الخاطر مما رواه والدي موسي بن جعفر کے نام سے شائع کیا۔

آپ کی والدہ ماجدہ بزرگ شیعہ عالم ورام بن ابى فراس کی بیٹی تھیں۔[6] نیز آپ کی دادی شیخ طوسی کی نواسی تھیں۔ اسی وجہ سے سید بن طاؤس کبھی کہتے کہ میرے نانا ورام بن أبی فراس ہیں اور کبھی کہتے کہ میرے نانا شیخ طوسی ہیں۔

شیخ طوسی کی دو بیٹیاں تھیں۔ سید بن طاؤس کے دادا جعفر ان میں سی ایک کے شوہر تھے۔ چونکہ اپنی دادی کی طرف سے بھی آپ کا نسب امام سجاد علیہ السلام کی بیٹی ام کلثوم سے ملتا ہے۔[7] اس لیے آپ کو ذو الحسبین[8] بھی کہا جاتا ہے۔[9]

آپ کی بیٹی فاطمہ 9 سال کی عمر سے پہلے حافظ قرآن ہوئیں جنہیں آپ کے والد ماجد اور بھائیوں نے امالی شیخ طوسی کی روایت کرنے کی اجازت دے دی تھی۔[10]

تعلیم ترمیم

سید ابن طاؤس نے تعلیم کا آغاز حلہ شہر سے ہی کیا اور اپنے والد ماجد اور جد امجد، ورام بن ابى فراس سے مقدماتی علوم کو سیکھا۔ آپ نے نہایت ہی مختصر مدت میں اپنے تمام کلاس فیلوں سے سبقت لے گیا چنانچہ کشف المحجۃ نامی کتاب میں فرماتے ہیں کہ: جب میں نے اسکول میں داخلہ لیا تو جسے دوسرے کئی سالوں میں سیکھتے تھے میں ایک سال کے اندر اندر انھیں سیکھ چکا تھا اور دوسرں سے آگے نکل گیا تھا۔ انھوں نے اڑھائی سال علم فقہ پر لگا دی اس کے بعد اپنے آپ کو استاد سے بے نیاز پا کر اپنے زمانے کے باقی فقہی کتابوں کا ذاتی طور پر مطالعہ کیا۔

آپ کی مسافرتیں ترمیم

سید بن طاؤس نے حصول تعلیم کی خاطر حلہ سے کاظمین کی طرف سفر کیا۔ کچھ مدت کے بعد شادی کی اور بعداد میں مقیم ہوئے جہاں انھوں نے 15 سال تک شاگردوں کی تربیت اور مختلف علوم کی تدریس کی۔ بغداد میں آپ سنہ 625 قمری میں چلے گئے تھے۔

عباسی دور حکومت میں حکومتی مناصب قبول کرنے کے حوالے سے آپ پر آئے روز دباؤ ڈالنے کی وجہ سے آپ بغداد سے اپنی جائے پیدایش یعنی حلّہ کی طرف واپس آگئے ۔

سید نے 3 سال تک شہر طوس، امام رضا علیہ السلام کے جوار میں زندگی بسر کی پھر نجف اور کربلا کی طرف ہجرت کر کے ان شہروں میں سے ہر ایک میں تقریبا تین تین سال قیام کیا۔ اس دوران شاگردوں کی تربیت اور مختلف علوم کی تدریس کے ساتھ ساتھ سیر و سلوک اور معنوی کمالات کے کسب کرنا بھی ان کی اولین ترجیحات میں سے تھا۔ انھوں نے کربلاء میں قیام کے دوران کشف المحجۃ نامی کتاب کو اپنی اولاد کے لیے بطور وصیت تحریر فرمایا جو اس وقت بچپنے کی حالت میں تھے۔

انھوں نے سنہ 652 ہجری کو بغداد کی طرف اپنا آخری سفر کیا۔ انھوں نے بغداد میں سادات کی نقابت کا منصب قبول کیا اور عمر کے آخری آیام تک بغداد میں ہی قیام پزیر ہوئے۔جب مغلوں نے بغداد پر حملہ کیا اور اسے فتح کیا تو اس وقت آپ بھی وہیں پر تھے۔

بغداد میں قیام کے دوران عباسی خلیفہ المستنصر کی جانب سے انھیں وزارت اور سفارت کے عہدوں کی پیش کش ہوئی لیکن انھوں نے کسی ایک منصب کو بھی قبول نہیں کیا خلیفہ کے لیے آپ کی دلیلیں یہ تھیں: اگر میں تمھاری مصلحت کے مطابق عمل کیا تو گویا اپنے اور خدا کے درمیان رابطے کو قطع کیا اور اگر خدا کے اوامر اور اس کے عدل و انصاف کے مطابق حرکت کروں تو تم اور تمھارا خاندان اور دوسرے وزراء اور تمھارے سفیر اور جرنیلوں سے یہ برداشت نہیں ہو گی اور یہ کہیں گے کہ علی بن طاؤس اس طریقہ کار کے ذریعے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر حکومت ہمیں مل جائے تو اس طرح حکومت کریں گے اور یہ وہ سیرت اور طریقہ ہے جو تم سے پہلے والے تمام حکمرانوں کی طرز حکومت سے مختلف اور ان کی طرز حکومت کو مردود سمجھنے کی مترادف ہیں۔

نقیب سادات، سادات میں سے علمی اور دینی حوالے سے بڑی شخصیات میں سے انتخاب کیا جاتا تھا جو سادات سے مربوط تمام امور کا ذمہ دار ہوا کرتا تھا ان ذمہ داریوں میں اختلافات کی صورت میں فیصلہ کرنا، مساکین اور بے نواؤں اور یتیموں کی سرپرستی وغیرہ شامل تھیں۔

سید بن طاؤس نے گرچہ عباسیوں کے دور حکومت میں کبھی بھی نقابت کا منصب قبول نہیں کیا لیکن بعد میں ہلاکو خان کے زمانے میں اس منصب کو قبول کیا اور اس زمانے کے شیعوں کے نقیب تھے۔[11]

آپ کے اساتید اور شاگرد ترمیم

سید بن طاؤس کے اساتید درج ذیل ہیں:


آپ کے شاگرد درج ذیل ہیں:


سید بن طاؤس بزرگوں کی نظر میں ترمیم

علامہ حلّی (726 ھ) سید بن طاووس کے بارے میں فرماتے ہیں: رضی الدین علی صاحب کرامات تھے جن میں سے بعض کے بارے میں انھوں نے خود مجھ سے کہا جبکہ ان کے بعض دوسرے کرامات کو میں نے میرے والد بزرگوار سے سنا ہے۔[16]۔

علامہ مجلسی فرماتے ہیں: سید نقیب، موثق، زاهد و جمال العارفین تھے۔[17]

محدث قمی فرماتے ہیں: سید رضی الدین ابو القاسم باتقوا، زاهد، سعادتمند، پیشوای عارفان، شب‌ زنده‌ داروں کے چراغ، صاحب کرامات، آل طاؤس کے طاؤس تھے۔[18]

تألیفات ترمیم

اصلی مضمون: سید بن طاؤس کے قلمی آثار

سید بن طاؤس نے تقریبا 50 کتابیں لکھی ہیں جن میں سے بہت سی دعا اور زیارت کے موضوع پر ہیں۔ ان کی ایک بہت بڑی لائبریری (Library) تھی اور اپنی تالیفات میں اس لائبریری سے استفادہ کرتے تھے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. کسی قوم یا گروہ کا بڑا آدمی، قبیلے کا ذمے دار فرد جو اس کی نمائندگی کرے، سردار، سربراہ۔
  2. عارفوں کی زینت
  3. کمونہ، مواردالإتحاف، ج1، ص107-108.
  4. بڑے مرغ کے برابر ایک پرندہ جو عام طور پر باغ اور جنگل وغیرہ میں رہتا ہے، اس کے پر ہرے نیلے پیلے اور سنہرے رنگ برنگے اور دم پر سبز اور سنہری چاند ہوتے ہیں، برسات میں دم کے پر پھیلا کر بڑی ترنگ سے ناچتا اور کوکتا ہے۔
  5. قمی، الکنی و الألقاب، ج1، ص341
  6. روضات الجنات، خوانساری، ج4، ص325.
  7. شہیدی گلپایگانی، راہنمای سعادت، ص14.
  8. دو حسب و نسب کے مالک
  9. سید بن طاووس، کشف المحجہ، ص294.
  10. محدثات شیعہ، ص 285
  11. احمد بن علی ابن عنبہ، الفصول الفخریہ، ص131-132.
  12. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشّیعہ (قرن السّابع)، ص117.
  13. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشّیعہ (قرن السّابع)، ص117.
  14. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشّیعہ (قرن السّابع)، ص117.
  15. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشّیعہ (قرن السّابع)، ص117.
  16. مجلسی، بحار الانوار، ج107، ص63 ،64.
  17. مجلسی، بحار الانوار، ج107، ص63 و 64.
  18. قمی، الفوائد الرضویۃ، ج1، ص542.

منابع ترمیم

  • آقا بزرگ، طبقات اعلام الشّیعہ (قرن السّابع)، بیروت، 1972م.
  • احمد بن علی بن عنبہ، جمال الدین، الفصول الفخریہ، بہ اهتمام سید جلال الدین محدث ارموی، نشر علمی و فرہنگی، 1363ش.
  • کمونہ حسینی، عبد الرزاق؛ مواردالإتحاف فی نقباء الأشراف، نجف اشرف، نشر الآداب، 1388هجری
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، کشف المحجہ یا فانوس، ترجمہ اسد الله مبشری، تہران، نشر فرہنگ اسلامی، چاپ اول، 1368ش.
  • شہیدی گلپایگانی، سید محمد باقر، راہنمای سعادت (ترجمہ کشف المحجہ)، تہران، نشر سعدی، 1382ه.
  • غروی نایینی، نہلہ، محدثات شیعہ، دانشگاہ تربیت مدرس، تہران، (چاپ دوم)1386ش.
  • قمی، عباس، الکنی و الألقاب، نجف أشرف، نشر حیدریہ، 1389ه.
  • قمی، الفوائد الرضویۃ فی أحوال علما المذهب الجعفریۃ، ترجمہ و تحقیق ناصر باقری بیدہندی، قم، نشر بوستان کتاب، 1385ش.
  • مجلسی، محمد باقر، کتاب الإجازات در بحار الانوار، بیروت، نشر مؤسسہ وفاء، چاپ سوم، 1403ق.
  • محمد بن محمد نعمان، شیخ مفید، المقنعہ، موسسہ النشر الاسلامی، 1410ق.