حلہ (عربی میں الحلة ) عراق کے وسط میں ایک چھوٹا شہر ہے جو نجف اور بغداد کے درمیان محافظۃ بابل (صوبہ بابل) میں موجود ہے۔ یہ شہر دجلہ کی شاخ حلہ کے کنارے واقع ہے۔ اس کا بغداد سے فاصلہ تقریباً 100 کلومیٹر (62 میل ہے)۔ 1998 کے مردم شمارہ میں اس کی آبادی تقریباً 364،700 تھی۔ حلہ بابل صوبہ کا دار الخلافہ ہے اور بیبیلون کے تاریخی شہر کے برابر میں اور بورسپا اور کیش کے جیسے تاریخی شہروں کے پاس ہے۔ اس شہر کا بیشتر علاقہ زراعت پر مشتمل ہے جسے حلہ نہر سیراب کرتی ہے اور یہاں کی پیداوار میں اناج، پھل اور ٹیکسٹائل شامل ہیں۔ ابن بطوطہ نے اس کا ذکر کیا تھا۔ اس کے مشہور لوگوں میں شیعہ عالم علامہ حلی (متوفی 1325 عیسوی) شامل ہیں۔

حلہ
(عربی میں: الحلة ویکی ڈیٹا پر (P1448) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

تاریخ تاسیس 1101  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
انتظامی تقسیم
ملک عراق   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
دار الحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ محافظہ بابل   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 32°29′00″N 44°26′00″E / 32.48333°N 44.43333°E / 32.48333; 44.43333
بلندی 34 میٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2044) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
کل آبادی 541034 (2015)  ویکی ڈیٹا پر (P1082) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مزید معلومات
اوقات متناسق عالمی وقت+03:00   ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
جیو رمز 99347  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

Map

ایک دور میں یہ شہر اسلامی تعلیمات کا اہم مرکز تھا۔

حلہ سلطنت عثمانیہ اور برطانوی سلطنت کا اہم انتظامی مرکز رہا۔ انیسویں صدی عیسوی میں خشک سالی کے باعث حلہ نہر کے سوکھ جانے اور اس میں سرف گاد رہ جانے سے زرعی زمین کا بیشتر حصہ برباد ہو گیا، مگر 1911 - 1913 کے درمیان ہندیہ بیراج کی تعمیر سے اس مسئلہ پر قابو پالیا گیا، جس کی مدد سے دریائے دجلہ کی شاخ ہندیا کا پانی ہلہ نہر کیطرف موڑ دیا گیا۔۔[2] 1920 میں یہاں برطانوی فوج کیخلاف بغاوت کی لہر اٹھی اور مانچسٹر دستہ کے 300 فوجیوں کو ظاہری شکست کا سامنہ کرنا پڑا۔


متحدہ امریکا کے حملہ کے دوران حلہ

ترمیم

ا اپریل 2003 میں عراق پر امریکی حملہ کے دوران حلہ شدید لڑائی کا مرکز رہا۔ عراقی فوج کے مدینہ ڈویژن کو اس لڑائی میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور شدید جھڑپوں کے دوران امریکی فوج( 2-70 آرمر، ایف ٹی، رائیلی، کے ایس) کے ہاتھوں کئی سو فوجی مارے گئے۔ آر جی مدینہ سے لڑائی کے بعد امریکی فوج بغداد کی جانب بڑھ گئی اور امریکی مرین فورسز نے حلہ کی باگ دوڑ سنبھال لی۔

حملے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد حلہ کے نواح میں مقامی لوگوں ایک بڑی اجتماعی قبر دریافت کی۔ مقامی لوگوں اور او۔ آر۔ آیچ۔ اے نے مل کر ہزاروں مردوں کی دوبارہ سے تدفین کی جنہیں 1991 میں صدام حسین کی فوجوں نے بغاوت کے الزام میں قتل کیا تھا۔

پہلی مرین ڈویژن نے حلہ سے ایک میل شمال میں صدام حسین کے محل سے تھوڑے فاصلہ پر بیس قائم کی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں بابل کا تاریخی شہر تھا اور اس وجہ سے تاریخی باقیات کو مزید نقصان پہنچا۔ ابو غریب جیل کی باگ دوڑ سنبھالنے سے پہلے جون 2003 سے اکتوبر 2003 تک 372 ملٹری پولیس کمپنی نے قانون نافذ کیا اور عراقی پولیس کو تربیت دی۔ عراق پر قبضے کے دوران حلہ شہر پولینڈ ملٹری زون کی زیر نگرانی تھا۔

ابتدائی حملہ کے بعد حلہ میں امن و امان کی صورت حال قدرے بہتر تھی مگر پھر یہاں کئی بم دھماکے ہوئے۔

  • فروری 2004: باغیوں نے ہنگری کے دستوں کی ذیر نگرانی کیمپ کو بم بردار ٹرکوں سے تباہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔
  • 28 فروری 2005: اس دور کا سب سے تباہ کن حملہ جب ایک بارود بھری گاڑی کے پھٹنے سے طبی مرکز کے باہر 125 افراد ہلاک ہوئے۔
  • 30 مئی 2005: دو خودکش دھماکوں میں 31 پولیس افسران ہلاک اور 108 پولیس افسران زخمی ہوئے
  • 30 ستمبر 2005: سبزی منڈی میں کار بم دھماکا، 10 افراد ہلاک اور 30 افراز زخمی
  • 2 جنوری 2007: شیعہ زضاکاروں پر دوہرا خودکش دھماکا، 73 افراد ہلاک اور 160 زخمی
  • 1 فروری 2007: ہجوم سے بھرے بازار میں دوہرا خودکش حملہ، 45 افراد ہلاک اور 150 کے لگ بھگ زخمی [3]
  • 6 مارچ 2007: شیعہ روضہ پر دو بارود بھری گاڑیوں سے حملہ، 114 افراد ہلاک اور 147 افراد زخمی
  • 10 مئی 2010: سرکاری کمپنی برائے ٹیکسٹائل صنعت پر جار بارود بھری گاڑیوں کا حملہ، 45 افراد ہلاک اور 140 افراد زخمی [4]

حوالہ جات

ترمیم
  1.    "صفحہ حلہ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 دسمبر 2024ء 
  2. Robert I. Money (1917)۔ "ہندیا بیراج، میسوپوٹیمیا"۔ 50 (3): 217–222۔ JSTOR 1779909 
  3. "شہر دھماکوں سے لرز اٹھا". Associated Press, فروری 2, 2007.
  4. Abbas al-Ani (10 May 2010)۔ "اس سال عراق کا خونی ترین دن"۔ Agence France-Presse۔ 13 مئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2010 

بیرونی روابط

ترمیم