نواب سید حسین بلگرامی، عماد الملک بہادر، سی ایس آئی (1842ء تا 1926ء)[1][2][3] ایک بھارتی سول سرونٹ، سیاست دان، ماہر تعلیم اور آل انڈیا مسلم لیگ کے ابتدائی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ مشہور مصنف، محقق اور مترجم سید علی بلگرامی ان کے چھوٹے بھائی تھے۔

سید حسین بلگرامی
معلومات شخصیت
پیدائش 18 اکتوبر 1842ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گیا ضلع  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 جون 1926ء (84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان،  انڈین سول سروس  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی ترمیم

سید حسین بلگرامی 1844ء میں سادات بلگرامی کی نسل سے گیاہ میں پیدا ہوئے اور کلکتہ کے پریذیڈنسی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ 1864ء میں ان کی شادی ہوئی اور ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ وہ لکھنؤ کے کیننگ کالج میں 1866ء سے 1873ء[1] تک کے طویل عرصے تک عربی پروفیسر کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد انھوں نے حیدرآباد کے نظام[2] کی خدمت سنبھالی۔ وہ سر سالار جنگ کی وفات تک اس کے پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔ اس عرصہ میں سر حسین بلگرامی نے سر سالار جنگ کے ساتھ انگلستان کا ایک یادگار سفر بھی کیا جہاں انھیں ملکہ وکٹوریا سے ملنے اور ان سے بات کرنے کا موقع ملا اور دوسرے ممتاز افراد جیسا کہ ڈسرائیل ، گلیڈسٹون، لارڈ سیلسبری، جان مارلے و دیگر کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی۔[4]

بعد ازاں وہ نظام حیدرآباد کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر مختلف کام سر انجام دیتے رہے۔ 1887ء سے 1902ء تک انھیں نظام حکومت کی طرف سے عوامی مشاورتی ادارے کا ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔ 1991ء سے 1902ء میں وہ یونیورسٹی کمیشن کے ایک رکن تھے۔ اس کے بعد جلد ہی انھیں 1907ء سے 1909ء میں انھیں ریاستی کونسل کے سیکرٹری اور امپیریل قانون ساز کونسل کا رکن بنا دیا گیا۔ خرابی صحت کے باعث 1907ء میں وہ نظام کی خدمات سے ریٹائر ہو گئے۔[1]

ان کا سب سے اہم کام ماہر تعلیم کے طور پر تھا۔ انھوں نے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر نظام کالج کہلایا۔ 1885ء میں انھوں نے لڑکیوں کے لیے ایک اسکول قائم کیا جو بھارت میں اس قسم کا پہلا اسکول تھا۔ تین صنعتی اسکولوں (تاکہ زوال پزیر صنعتوں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع مل سکے) کے قیام میں ان کا کلیدی کردار رہا جس کے لیے انھوں نے مقامی صنعتوں کے تین بڑے مراکز اورنگ آباد، حیدرآباد اور ورانگل کا انتخاب کیا۔ انھوں نے ایک ریاستی لائبریری بھی قائم کی۔[5]

اپنی خدمات کے لیے انھیں نواب علی خان بہادر، موتامن جنگ، عماد الدولہ اور عمادالملک کے القاب سے نوازا گیا اور برطانوی راج کے لیے ان کی خدمات پر بھارتی حکومت نے انھیں سی ایس آئی سے نوازا۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ The Indian Biographical Dictionary۔ 1915 
  2. ^ ا ب Francis Robinson (1974)۔ Separatism Among Indian Muslims: The Politics of the United Provinces۔ Cambridge University Press 
  3. Eminent Mussalmans۔ G. A. Natesan Publishers, Madras. India۔ 1925 
  4. ^ ا ب "Eminent Mussalmans"۔ archive.org۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2016 
  5. "Eminent Mussalmans"۔ archive.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2016