سید سلطان بہرائچی
سید سلطان بہرائچی کی پیدائش859ھ میں بہرائچ میں ہوئی تھی۔[1]
سید سلطان بہرائچی | |
---|---|
پیدائش | سید سلطان 859ھ مطابق 1455[1] بہرائچ اتر پردیش بھارت |
وفات | 949 ھ[1] بھارت |
پیشہ | ، |
حالات و خدمات
ترمیمشیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب اخبار الاخیار [1] میں آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میرے والد فرماتے تھے کہ سید سلطان بہرائچی اہل دل ،خاکسار اور صاحب ہمت درویش تھے۔ شیخ علاؤادلدین کے مرید تھے تلقین و ارشاد کا تعلق سلسلہ شطاریہ سے رکھتے تھے۔ لباس میں صرف ستر عورت پر اکتفا کرتے اور عام طور پر ننگے سر رہا کرتے کبھی درویشوں کے ساتھ رہتے اور کبھی عالم تنہاٗئی میں رہتے تھے،دینوی رسوم سے آزاد رہا کرتے تھے۔ ذکر بالجبرزیادہ کرتے تھے،دوران ذکر میں آپن اپنے قلب پر اس زور سے ضرب لگاتے تھے جس طرح صنوبر کی لڑکی چیرتے وقت کثر کثر کی آوازیں نکلتی ہیں اسی طرح آپ کے دل سے آوازٰیں نکلتی تھیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب اخبار الاخیار میں آگے لکھتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا کہ میں پہلے طلب حق کے سلسلہ میں سلطان بہرائچی کی خدمت میں حٓضر ہوا آپ اس وقت کتابت میں مشغول تھے میں بیٹھے بیٹھے سر نیچہ کیے چپکے چپکے ذکر کرنے لگا ،تھوڑی دیر کے بعد سر اٹھا کر میری طرف غصہ سے دیکھنے لگے اور بعد میں تبسم فرمایا اور مجھے اپنے سینہ سے لگایا اور مہربانی فرمائی،لیکن مجھے حقیقت دریافت کرنے کی جرات نہ ہوئی ،پھر جب میں وہاں سے چلا گیا تو آپ نے خود مجلس میں ذکر کیا کہ آج میرے پاس ایک نوجوان آیا جو قلب سے ذکر کر رہا تھا مجھے غیرت آئی چاہا کہ اس کے دل پر ایک طمانچہ ماروں لیکن میرے پیرو مرشد حاضر ہوئے ،فرمایا کہ رحم کا مقام ہے۔[1] حکایت ہے کہ آپ کو ایک ہندو عورت سے محبتت ہو گئی تھی جو آپ کی توجہ کی لدولت مسلمان ہو گئی تھی،اس کے قبیلہ کے لوگوں نے محمد زماں کے یہاں جو ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ کے رشتہ دار تھے،مقدمہ داخل کر دیا،محمد زماں نے آپ کی طرف پیغام بھجا کہ اس عورت کو گھر سے نکال دو ورنہ تم پر حملہ کروں گا ،آپ نے تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ یہ مسلمان ہو گئی ہے اس کا کافروں کے سپرد کرنا ناجائز ہے،اگر آپ کو لڑائی کا شوق ہے تو جلدی آجا یئے دیکھیے اللہ تعالیٗ کیا معاملہ فرمتا ہیں،سید سلطان بہرائچی کے اس جواب سے محمد زماں مرعوب ہو گیا تھا اور اپنی حرکت پر شرمندہ ہوا۔[1]
خلفاء
ترمیمشیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب اخبار الاخیار میں آپ کے خلفاء کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کے مریدوں اور خلفاء میں سے شیخ ابن انبردھ بھی ہیں جو بوڑھے بابرکت اور مجذوب شکل تھے۔[1]
وفات
ترمیمشیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب اخبار الاخیار میں سید سلطان بہرائچی کی وفات کا ڈکر کرتے ہوئے صرف سن ہجری 949ھ کا ڈکر کرتے ہیں۔ اور جائے مدفن کے بارے میں کچھ بھی ذکر نہیں ملتا کی آپ کی وفات کہاں ہوئی اور تدفین کہا ہوئی۔[1]
حوالہ جات
ترمیم* اخبار الاخیار
ضیائے طیبہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ziaetaiba.com (Error: unknown archive URL)