ضم کریں در عبدالرشید (دیانند سرسوتی کا قتل)
شرد ہانند رسوائے زمانہ شدھی تحریک کا بانی اور ہندو مسلم فساد کا داعی تھا۔ اس کا اصل نام منشی رام تھا اور وہ مسلمانوں کے خلاف فرنگی سازشوں کا آلۂ کار تھا۔ تحریک خلافت کے زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کی جو فضا برسوں کے اندر پیدا ہوئی تھی، شردھا نند اور اس کے چیلوں نے چند مہینوں میں اسے نفرت و انتشار میں بدل دیا۔ یہ لوگ گاؤں گاؤں پھیل گئے اور اسلام پر کیچڑ اچھالنے لگے۔ حد یہ کہ ان لوگوں نے براہ راست ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے شروع کر دیے۔ شردھانند کے ایک چیلے نے ’’جڑپٹ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں اس قدر سخت گستاخیاں بالکل عریاں الفاظ میں کی گئی تھیں کہ اس خباثت کا تصور بھی مشکل ہے۔

توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کفر کی آخری حد ہے۔ شردھانند کی لگائی ہوئی آگ ہر طرف بھڑک رہی تھی اور جاں نثار ان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل تڑپ رہے تھے۔ بگراس ضلع بلند شہر (یوپی) سے ایک نوجوان عاشق رسولصلی اللہ علیہ وسلم اٹھا اور اس نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرنے والے اس گروہ کے سرغنہ کا قصہ پاک کرنے کی ٹھان لی۔ شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پروانہ غازی عبد الرشید تھا۔ ایک غریب مگر معزز گھرانے کا یہ فرزند جس کی خوش قسمتی پر کائنات ہمیشہ ناز کرے گی، دہلی سے افغانستان روانہ ہوا اور وہاں سے ایک پستول خرید کر لوٹ آیا۔ اب غازی عبد الرشید تھا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے قراریاں تھیں۔ جذبوں کی حرارت جوں جوں بڑھتی گئی اور اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ نکھرتا گیا۔ وہ موقع کی تلاش میں تھا اور قدرت نے یہ موقع اسے جلد ہی فراہم کر دیا۔ 17 دسمبر 1926ء کو شردہانند دہلی میں اپنے مکان پر موجود تھا کہ غازی عبد الرشید ریوالور لے کر دن دہاڑے اس کے آ شرم میں جا پہنچا۔ ملت اسلامیہ کے اس غیور فرزند نے دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم شرد ہانند ملعون کو للکارا اور پستول کی لبلبی دبا دی۔ چھ گولیاں اس ملعون کے سینے میں پیوست ہو گئیں اور یوں بیسیویں صدی کے ایک بہت بڑے فتنے کی کہانی اپنے بھیانک انجام کو پہنچ گئی۔

شرد ہانند کے قتل سے ہندوؤں میں صف ماتم بچھ گئی جبکہ مسلمانوں نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا۔ غازی عبد الرشید نے ابتدائی کارروائی کے دوران ہی قتل کا اعتراف کر لیا۔ دہلی ، یوپی اور پنجاب کے مسلمانوں نے مقدمے میں گہری دلچسپی لی۔ ہر پیشی پر عدالت میں غازی عبد الرشید سے محبت کرنے والوں کا بے پناہ ہجوم امڈ آتا۔ مقدمے کی ساری رواداد خود مولانا محمد علی جوہر نے شائع کی۔ عدالت نے غازی عبد الرشید کو پھانسی کی سزا دی اور ملت اسلامیہ نے اپنے اس قابل فخر سپوت کو ’’شہید اسلام‘‘ اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب سے نوازا۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "سید عبدالرشید"