تحریک خلافت
پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ ترکی کی جنگ میں شمولیت سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی جرمنی کو شکست اور برطانیہ کو فتح ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بصرہ اور جدہ میں داخل کر دیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کو وعدے یاد دلانے کے لیے اور خلافت کے تحفظ کے لیے ایک تحریک شروع کی جسے "تحریک خلافت" کا نام دیا گیا۔
خلافت کمیٹی کا قیام
ترمیم5 جولائی 1919ء کو خلافت کے مسئلے پر رائے عامہ کو منظم کرنے اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے بمبئی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کر دی گئی جس کے صدر سیٹھ چھوٹانی اور سیکرٹری حاجی صدیق کھتری منتخب ہوئے۔
مقاصد
ترمیمتحریک خلافت کے بڑے بڑے مقاصد یہ تھے:
- خلافت عثمانیہ برقرار رکھی جائے۔
- مقامات مقدسہ(مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ ) عثمانی خلافت کی تحویل میں رہیں۔
- سلطنت عثمانیہ کو تقسیم نہ کیا جائے۔[1]
خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس نومبر 1919ء میں دہلی میں ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمان انگریز کے جشن فتح میں شریک نہیں ہوں گے اور اگر ان کے مطالبات منظور نہ ہوئے تو وہ حکومت سے عدم تعاون کریں گے۔ اس اجلاس میں ہندوؤں سے تعاون کی اپیل کی گئی۔
ہندو مسلم اتحاد
ترمیمآل انڈیا کانگریس نے پہلے ہی رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر مہم شروع کر رکھی تھی۔ دسمبر 1919ء میں آل انڈیا کانگریس، مسلم لیگ اور خلافت کمیٹی کے اجلاس امرتسر میں منعقد ہوئے جہاں گاندھی جی نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔
خلافت وفد انگلستان میں
ترمیم1920ء میں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد انگلستان، اٹلی اور فرانس کے دورے پر روانہ ہوا تاکہ وزیر اعظم برطانیہ اور اتحادیوں کو ان کے وعدے یاد دلائے۔ وفد نے برطانیہ پہنچ کر وزیر اعظم لائیڈ جارج سے ملاقات کی لیکن اس کا جواب “آسٹریلیا اور جرمنی سے خوف ناک انصاف ہو چکا اور ترکی اس سے کیوں کر بچ سکتا ہے۔“ سن کر مایوسی ہوئی۔ اس کے بعد وفد نے اٹلی اور فرانس کا بھی دورہ کیا مگر کہیں سنوائی نہ ہوئی۔
تحریک کی سرگرمیاں
ترمیم- تحریک خلافت کے تحت وفود بھیجے گئے۔وفود نے یورپی ممالک اور خصوصا برطانیہ میں برصغیر کی مسلم رائے عامہ سے حکومتوں کو آگاہ کیا۔[1]
- ڈاکٹروں اور نرسوں کے گروپ عثمانی مجاہدین کی مرہم پٹی کے لیے بھیجے گئے۔ادویات بھی فراہم کی گئیں۔[1]
- عثمانی حکومت کو رقوم مہیا کی گئیں۔مسلم عوام نے کثیر دولت کرنسی، سونے اور چاندی کی صورت میں جمع کرکے عثمانی حکومت کی مالی مدد کے لیے روانہ کی۔[1]
- برصغیر کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں بڑے بڑے جلوس نکالے گئے، جلسے منظم کیے گئے،ہڑتالیں کی گئیں اور مسلم عوام نے بڑی تعداد میں گرفتاریاں پیش کیں۔تحریک کے لیڈروں کو جیلوں میں بند کیا گیالیکن تحریک کی آب و تاب میں کوئی فرق نہ آیا۔[1]
- تحریک خلافت میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی اماں کا کردار بھی اہمیت کا حامل تھا۔ ان دنوں یہ نعرہ بہت مقبول ہوا: ”کہتی ہے اماّں محمدعلی کی ـــــ جان بیٹا اپنی خلافت پہ دے دو“[1]
- مسلم صحافت نے بھی زوردار کردار ادا کیا۔ مولانا ظفر علی خاں نے زمیندار مولانا آزاد نے الہلال اور مولانا محمد علی جوہر نے کامریڈ و ہمدرد اخبار کے ذریعے مسلم عوام کے ذہنوں میں طوفان پیدا کر دیا۔[1]
معاہدہ سیورے
ترمیممکمل مضمون کے لیے دیکھیے معاہدہ سیورے
خلافت وفد ابھی انگلستان میں ہی تھا کہ ترکی پر معاہدہ سیورے مسلط کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں تمام بیرونی مقبوضات ترکی سے چھین لیے گئے، ترکی پر فضائی فوج رکھنے پر پابندی لگا دی گئی اور درہ دانیال پر اتحادیوں کی بالادستی قائم رکھی گئی۔
تحریک ترک موالات
ترمیموفد خلافت کی ناکام واپسی اور معاہدہ سیورے کی ذلت آمیز شرائط کے خلاف خلافت کمیٹی نے 1920ء میں تحریک ترک موالات کا فیصلہ کیا گاندھی کو اس تحریک کا رہنما مقرر کیا گیا۔ اس کے اہم پہلو یہ تھے۔
- حکومت کے خطابات واپس کر دیے جائیں۔
- کونسلوں کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا جائے۔
- سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی اختیارکر لی جائے۔
- تعلیمی ادارے سرکاری امداد لینا بند کر دیں۔
- مقدمات سرکاری عدالتوں کی بجائے ثالثی عدالتوں میں پیش کیے جائیں۔
- انگریزی مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔
تحریک ہجرت
ترمیمتحریک خلافت کے دوران میں 1920ء میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، =پیر مولانا دوست محمد بارکزئی صوابی حاص - مولانا ظفر علی خان اور عطاء اللہ شاہ بخاری سمیت کچھ علما نے برصغیر کو دار الحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ جاری کر دیا، جس کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر ہمسایہ ملک افغانستان کی راہ لی۔ یہ ہجرت حکومت افغانستان کے عدم تعاون کے باعث ناکام ہو گئی اور مسلمانوں کو اس سے کافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ [2]
جامعہ ملیہ کا قیام
ترمیممولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ کی انتظامیہ سے سرکاری امداد نہ لینے کی اپیل کی۔ کالج کے انتظامیہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں مولانا محمد علی جوہر نے بہت سے طلبہ کو اپنے ساتھ ملا کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ 1925ء میں دہلی منتقل کر دیا گیا۔
موپلہ بغاوت
ترمیمساحل مالابار موپلہ مسلمانوں نے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کے نتیجے میں انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ انھوں نے تنگ آ کر 1925ء میں بغاوت کر دی۔ حکومت نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور ہزاروں موپلوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
چورا چوری کا واقعہ
ترمیم5 فروری 1922ء کو تحریک خلافت کی حمایت میں لوگوں نے مشتعل ہو کر اترپردیش کے ایک گاؤں چورا چوری میں ایک تھانے کو آگ لگا دی جس میں 22 سپاہی جل مرے۔ اس واقعے کو آڑ بنا کر کرگاندھی نے اعلان کر دیا کہ چونکہ یہ تحریک عدم تشدد پر کار بند نہیں رہی اس لیے اسے ختم کیا جاتا ہے۔
ناکامی کے اسباب
ترمیمناپائیدار اتحاد
ترمیمہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد سطحی، جذباتی اور وقتی تھا۔ دونوں قوموں کو حکومت کے خلاف نفرت نے عارضی طور پر اکھٹا کر دیا تھا لیکن شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں نے جلد ہی اس اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا اور تحریک خلافت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔
مقاصد میں تضاد
ترمیممسلمانوں کی تحریک خلافت سیاسی فائدے کی بجائے مذہبی جوش و خروش پر مبنی تھی۔ ہندو اس سے سیاسی فائدہ تلاش کر رہے تھے جو تحریک خلافت کی کامیابی سے ملنا مشکل تھا۔ چناں چہ جب تحریک خلافت کامیابی سے ہم کنار ہونے والی تھی تو گاندھی نے تحریک ختم کرنے کا اعلان کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔
گاندھی جی کی قلابازی
ترمیمگاندھی نے اس تحریک کو اس وقت ختم کرنے کا اعلان کیا جب مسلمانوں کے تمام رہنما جیل میں تھے اور تحریک کی قیادت سنبھالنے والا کوئی موجود نہیں تھا۔ اس سے تحریک بھی ختم ہو کر رہ گئی اور مسلمانوں کا اپنے قائدین سے بھی اعتماد اٹھ گیا۔
گاندھی جی ہندوؤں کے مہاتما بن گئے اور مولانا محمد علی جوہر گوشہ گم نامی میں چلے گئے۔ اوراسی حالت یعنی گمنامی میں ان کی وفات ہو گئی۔
ترکی میں جمہوریت کا نفاذ
ترمیممارچ 1924ء میں مصطفی کمال پاشا نے ترکی کے علاقے آزاد کرا کے جمہوریہ کے قیام اور اپنی صدارت کا اعلان کر دیا اور ترکی میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔
جنگ عظیم اول تو ختم ہو چکی تھی لیکن اتحادیوں میں سے ایک ملک یونان، ترکی کو مزید تباہ کرنے کے درپے تھا۔ اس دوران ایک ترک جرنیل مصطفٰے کمال پاشا نے بکھری ہوئی ترک قوتوں کو مجتمع کیا اور یونانیوں کو شکست دی۔ مصطفٰے کمال پاشا نے آخری خلیفہ عبدالمجید ثانی کو اقتدار سے الگ کرکے حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ترکی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے لگا۔
روس اور برطانیہ میں ترکی پر قبضے کے لیے باہم رقابت موجود تھی، چنانچہ یہی رقابت ترکی کو بچا گئی۔ مصطفے کمال پاشا کی حکومت نے اتحادیوں کے ساتھ ایک معاہدہ لوزان تحریر کیا۔ اس معاہدے کی شرائط معاہدہ سیورے کے مقابلے میں ترکی کے لیے بہتر تھیں۔ ترکی میں خلافت ختم ہو گئی اور جمہوریت قائم ہو گئی۔ حجاز مقدس پر شریفِ مکہ کے زیر اقتدار دے دیا گیا اور ترکی کا مسئلہ حل ہو گیا۔
نئے حالات کی روشنی میں برصغیر میں تحریک جاری رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی، اس لیے قائدین اور عوام رفتہ رفتہ خاموش ہو گئے۔ ایک لحاظ سے تحریک کے مقاصد پورے ہو گئے تھے، مثلاً
- خلافت کو ترکوں نے خود ختم کر دیا تھا۔
- حجاز مقدس پر عربوں کا کنٹرول ہوا تو اس علاقے کے تقدس اور احترام کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔
- ترکی بحیثیت ایک ملک قائم رہا، تاہم حکومت ترکی نے ازخود بہت سے علاقوں پر اپنی حاکمیت ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
یہودی وطن کے قیام کی سازش
ترمیمپہلی جنگ عظیم کے دوران میں برطانوی حکومت نے اعلان بالفور کی رو سے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی سازش کی۔ اس لیے وہ سلطنت عثمانیہ کی سابقہ حدود کو بحال کرنا نہیں چاہتی تھی۔
سعودی عرب کا قیام
ترمیمشریف مکہ نے سازش کر کے حجاز مقدس کو سلطنت عثمانیہ سے الگ کر لیا تھا۔ جس پر عبدالعزیز ابن سعود نے سعودی عرب کے نام سے الگ مملکت کے قیام کا اعلان کر دیا جس سے تحریک خلافت ماند پڑ گئی۔
تحریک خلافت کے نتائج
ترمیمتحریک خلافت جیسی عوامی تحریک کی مثال برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ تحریک اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی لیکن اس نے ہندوستان کی سیاست اور مسلمانوں کی تاریخ پر گہرے نقوش مرتب کیے۔
- مسلمانوں کی مایوسی
- ہندو مسلم اتحاد کا خاتمہ
- سیاسی شعور کی بیداری
- پر جوش قیادت کا ابھرنا
- علما اور طلبہ کا سیاست میں داخلہ
- گاندھی جی کی قیادت
- داخلی مسائل کی طرف توجہ
- آل انڈیا کانگریس اور جمعیت علمائے ہند میں تعاون
- ہندو ذہنیت کا آشکار
- برطانوی راج متزلزل
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم