محمد علی جوہر
محمد علی جوہر (10 دسمبر 1878ء - 4 جنوری 1931ء) ایک تحریک آزادی کے کارکن، انڈین نیشنل کانگریس کے ممتاز رکن، صحافی اور شاعر تھے۔ وہ تحریک خلافت کے سرکردہ شخصیت اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔
محمد علی جوہر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 10 دسمبر 1878ء [1] رام پور |
وفات | 4 جنوری 1931ء (53 سال)[1][2] لندن |
شہریت | برطانوی ہند |
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس |
والدہ | آبادی بانو بیگم |
عملی زندگی | |
مادر علمی | لنکن کالج، اوکسفرڈ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
پیشہ | مصنف ، صحافی ، مترجم ، حریت پسند |
پیشہ ورانہ زبان | ہندی [1] |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیموہ ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ والدہ، آبادی بانو بیگم، مذہبی خصوصیات کا مرقع تھیں، اس لیے بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلٰی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں ملازمت کی۔
صحافت
ترمیمجلد ہی ملازمت سے دل بھر گیا۔ اور کلکتہ جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔
انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔ انھوں نے ایک اردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ تھا۔
جد و جہد آزدی
ترمیمجدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔ تحریک ترک موالات میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوئی۔
وفات اور تدفین
ترمیمآپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادیء وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمھیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے نعش بیت المقدس لے جائی گئی۔
شاعری
ترمیممولانا کو اردو شعر و ادب سے بھی دلی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔ مثلاً:
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے | یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے |
ان کا یہ شعر بھی کافی مشہور ہے:
قتلِ حسین اصل میں مَرگِ یزید ہے | اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد |
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb124515014 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/ali-mohammed — بنام: Mohammed Ali