سید مولانا محمدیار (آتش نفسؒ)

سید مولانا محمد یار آتش نفسؒ بڑے عالم فاضل اور وقت کے ولی اللہ گذرے ہیں۔علاقہ ملکیزئی، سابقہ ضلع/ولسوالی شینکئی اور حالیہ ولسوالی / ضلع نوبہار،صوبہ زابل ، افغانستان میں پیدا ہوئے تھے۔ تاریخ پیدائش معلوم نہیں البتہ تاریخ وفات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپؒ 1825ء تا 1828ء کے دوران پیدا ہوئے ہیں۔ آتش نفس کا لفظی معنی ہے : سوختہ جگر، صاحب سوز وگداز۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپؒ  حالت سکر میں ہوتے تو آہ سے آگ  بن جاتی۔ آپؒ 1281شمسی بمطابق 1902ء کو بیت اللہ میں وفات پاکر مکہ مکرمہ جنت المعلی میں مدفون ہیں، آپؒ سلسلہ نقشبندیہ کے معروف شیخ سید مولانا محمد یعقوب چرخیؒ کے پڑپوتے اور میرے والد صاحب کے پردادا ہیں۔والئی افغانستان امیر عبد الرحمن خان[2] نے آپؒ کو  درخواست کی تھی  کہ آپؒ کابل میں رہ کر افغان فوج کی روحانی تربیت کریں چنانچہ آپؒ دوسال تک کابل میں مقیم  رہے جہاں آپؒ کے  نام سے منسوب مسجد کابل یونیورسٹی کے علاقے میں (مسجد صاحب آغاؒ) آج بھی موجودہے۔آپؒ اورآپ کی اولادکو افغان حکومت (امیرعبدالرحمن خان)کیجانب سے اعزازی طور پر"صاحبزادہ"لقب دیاگیاہے۔ والئی افغانستان امیرعبد الرحمن خان کے بیٹے اور غازی امان اللہ خان کے والد امیرحبیب الرحمن خان[3] کے دورسلطنت میں سیدمولانامحمدیارآتش نفسؒ کی اولاد کے لیے ایک شاہی فرمان (اعزازی و ٹیکس معافی خط) جاری کیا گیا جس میں لکھا گیا ہے کہ: آپؒ کا خاندان ہرقسم کے ٹیکس وسرکاری مالیہ سے مبرا ہیں، ریاست کے کسی بھی حصے میں انھیں کوئی تکلیف نہ پہنچایا جائے بلکہ ہر قسم کی مدد کی جائے، مزید یہ کہ اس خاندان سے دعا لی جائے اور ان کے بددعا سے اپنے آپ کو بچائیں)  مرقوم ہے کہ شاہ افغانستان امیر عبد الرحمن خان انتہائی سخت گیر شخصیت تھے،انھوں نے اپنے دور حکومت میں علما ، فقراء ، درویشوں ، اقوام کے سرکردوں سمیت تمام معتبرین کو دار الخلافہ میں اکھٹا کرواکر انھیں اسی بہانے سے قید و بند میں رکھتے۔ انہی میں  حضرت محمد عمر صاحب مجددی ھروی ، شیخ محمد عطا صاحب قندہاری ذاکری، مولانا ابوبکر اخند ترکئی اور قطب زمان شیخ نجم الدین صاحب غازی جلال آبادی جیسے بڑے بزرگ  شامل  تھے ان کی سیاسی نسبت کے سبب حکومت نے کسی کو زہر،کسی کو تشدد سے  یا فرار کرواکر یا دار پر لٹکایا۔ اس دوران شاہ افغانستان نے قلات کے سپہ سالار غلام حیدر خان تگابی کو فرمان جاری کیا کہ :

توسط افرادجواسیس خفیہ بمن اطلاع رسیدکہ درعلاقہ غنڈان توخی شہرقلات سیادت  نشان محمدیار نام یک شخصی آتش نفس صاحب اعتبار وعزت است ۔ فورا بلا معطل بہر وسائل کہ میدانید تحت الخط بکابل روانہ کنید والسلام۔[4]

ترجمہ:      خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ذریعے مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ قلات کے علاقے غنڈان توخی  میں سادات نشان رکھنے والے ایک شخص بنام محمدیارآتش نفس عزت و اعتبار  والے رہتے ہیں۔انھیں فورا بلا تاخیر میسر وسائل کے ذریعے کابل روانہ کریں، والسلام

بادشاہ اور بچوں کے مزاج میں چنداں فرق نہیں ہوتا ہے بلکہ بچے اگر شرارت کرے تو کوئی مصیبت نہیں لیکن بادشاہوں سے روز عدل ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا۔ پھر بھی اگر بادشاہ عادل اور عوام کا ہمدرد ہو تو ولی کامل ہوتا ہے لیکن ایسا آج کل کے دورمیں ممکن ہی نہیں کیونکہ ان کے مزاج میں غرور و تکبر عادت بھی کرچکے ہیں۔

اھل دولت چون صراحی ، ناز و قلقل می کند

کس  نمی  گیرد  بکف ، گرمی  نباشد  جام  را

اس سے قبل سیدمحمدیار آتش نفسؒ  خانقاہ "واقع ملکیزیMalakezi" میں دوسال بغیر تعطل کے خلوت میں تھے جمعہ کو افطار کر رہے تھے کہ حالت جذب میں گئے، اسی رات  کابل سے شاہی فرمان آیا  اور آدھی رات آتش نفس ؒ اپنے  ایک خادم کے ساتھ خانقاہ سے نکل کر کابل روانہ ہوکر خیر و عافیت سے سردار توخئی عبد اللہ خان مرحوم علی مردان کے باغ میں سکونت اختیار کی۔ بادشاہ کو ان کے اتنی جلدی آنے پر تعجب تو ہوا لیکن انھوں نے اپنے وزیروں اور مشیروں کو ہدایت جاری کی اور جلاد کو بھی سمجھایا کہ جب یہ درویش ِ آتش نفس سلام خانے میں وارد ہوجائے تو کوئی اسے جگہ نہ دے گا  اور بغیر کسی حساب کے میرے اشارہ ء ابرو انھیں قتل کیا جائے ۔

ستا چشمان به سہ نگاه کا په خاکسارو

چی له کبره  دی   بانڑہ گوری آسمان ته

لیکن انھیں قضا و قدر کی ہرگز خبر نہ تھی،اگلے دن اس عاشق الہی نے دیکھا کہ دربار کے راستے میں ہر غلام و کبیر نے پہلے سے تلواریں نکالی ہوئی ہیں اور بادشاہ تخت پر غیظ و غضب کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔اسی حال میں ہمارے درویش حالت استغنا میں بادشاہ کے دربار میں داخل ہوئے اور بہ آواز بلند السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتُہ اور پوچھا کہ نائب رسول کون ہیں جو امور شریعت چلاتا ہے؟ ایسے میں امیر عبد الرحمن استقبال کے لیے اپنی جگہ سے اٹھتا ہے اور آگے بڑھ کر ہاتھوں اور پیشانی کو چومتا ہے اور اس درویش کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتا ہے۔ ( جان لو کہ ایک صاحبدل درویش کی ملاقات کا اثر ایک بادشاہ کے دل کو کس طرح کھول دیتا ہے)آتش نفسؒ ہمیشہ سائلوں کا جواب کتاب غیب سے دیتے ،فصاحت و بلاغت کے ساتھ بادشاہ افغانستان کو جواب دیا کہ:

آسمان سقف این زمین فرش است

خاکیان  را چہ  حاجت ِ  عرش است[5]

بادشاہ نے درویش سے پوچھا کہ تجھے آتش نفس کیوں کہا جاتا ہے جس کی پورے افغانستان میں شہرت ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ جی یہ سب اللہ کا کرم ہے۔تب (آزمانے کی خاطر) گندم کا بھوسا رکھا گیا تو درویش نے آنکھیں بند کر لیں اور دربار میں سبھی انتظار کرنے لگے کہ کیا ہوتا ہے، تب " ھو " کی آواز آتی ہے اور بھوسے سے ایک سفید دھواں آسمان کی جانب اٹھنا شروع ہوتا ہے اور آگ لگ جاتی ہے کہ اس سے قالین کے ساتھ کینہ دل دشمنوں کا حسد بھی بھسم ہوجاتا ہے۔فقیر کے اس حال کا  مشاہدہ کرنے کے بعد بادشاہ  نے درویش کو سینے سے لگایا اور دربار میں داد و تحسین کی آوازیں بلند ہوئیں۔ بادشاہ نے کہا کہ خداوند تیرے والدین پر ہزار رحمتیں رکھے کہ جنھوں نے تیری تربیت کی ۔ اس طرح کدورت بادشاہ کے دل سے صاف ہوئی اور درویش آتش نفسؒ نے لحن داودی میں سورہ رحمٰن کی تلاوت کی جب  يَخْرُجُ مِنْهُمَا ٱللُّؤْلُؤُ وَٱلْمَرْجَانُ[6]، کی آیت پر پہنچے تو بادشاہ کے گالوں پر آنسو لڑھک رہے تھے اور وہ دربار سے اٹھے۔ ختم و فاتحہ کے بعد  مجلس صحبت و الفت سے طول پکڑتی گئی۔

مدارا  عارفان  را  با ھو سناکان  بود  لازم

کہ سوزن می کشد خاری زپا آہستہ آہستہ[7]

شاہ کابل نے سلطان غندان کو بعد میں قرآن کریم  کا قلمی نسخہ (جو آب زر اور قدیم کشمیری رسم الخط سے لکھا گیا تھا) ، ایک عدد چمڑے کا کوٹ (جسے افغانستان میں پوستین کہا جاتا ہے)  سمیت 6000 ہزار افغانی تحفہ میں  دیے حضرت نے قرآن کریم اور پوستین  کا ہدیہ قبول کیا اور نقدی کو قبول نہ کیااور جواب میں فرمایا:ملا نائب بسیار مہربان است، اما کلام من خورد ولقمہ کلان است کہ عبارت از شش ہمان است۔[8]

ترجمہ:      ملا نائب (امیرعبدالرحمٰن خان) بہت مہربان ہیں، جبکہ میرا کلام چھوٹا اور لقمہ (مبلغ چھ ہزار افغانی)بہت بڑا ہے،جس سے مراد وہی چھ (ہزار افغانی)ہے۔

اس کے بعد درویش  آتش نفسؒ آزادانہ گھوم پھر لیتے ، سال نہیں گذرا تھا کہ بادشاہ کابل (امیرعبدالرحمٰن خان 1901ء میں)فوت ہوئے اور امیر حبیب اللہ خان شہید تخت کابل پر بیٹھ گئے۔ امیر حبیب اللہ خان کے دربار میں آتش نفسؒ نے خطبہ پڑھا اور نئے امیر کو مبارکباد دیتے ہوئے حج کی زیارت کی اجازت مانگی، حج واپسی پر ہی وفات پائی اور جنت معلی میں مدفون ہوئے )۔

اسی  زمین  میں  اک دن  مجھے بھی  سونا ہے

‏اسی زمیں کی امانت ہیں میرے پیارے بھی  

سید مولانامحمدیار آتش نفسؒ کے10 بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے بیٹے سید محمد موسی جان آغا ؒ عرف لالاصاحبؒ تھے۔

10

سید

بہاؤ الدین آغاؒ (بہائی جان آغاؒ)

9

سید غلام حیدر آغاؒ

8

سید غلام سرور آغاؒ

7

سید خیر الدین آغاؒ

6

سید جیلانی آغاؒ

5

سید محمدعمر جان آغاؒ

4

سید سیف الدین آغاؒ

3

سید نور محمد آغاؒ

2

سید میر احمد آغاؒ

1

سیدمحمدموسیٰ جان  آغاؒ

(لالاصاحبؒ  )

سید محمد موسی جان آغا ؒ عرف لالا صاحبؒ  کے تین بیٹے تھے، بڑے بیٹے کا نام سیدمحمدابراھیم جان آغاؒ  عرف آغا لالا، دوسرے بیٹے کانام سیدخواجہ احمدآغاؒ  اور تیسرے بیٹے کا نام سید محمد نعیم آغاؒہے۔

سیدخواجہ احمد آغاؒ کے سات صاحبزادے تھے، جن کی تفصیل بالترتیب حسب ذیل ہے:

سید مولانا عبد الاحد آغا  (لالک آغا)

جمعیت روڈ خلجی آباد، سپنی روڈ، کوئٹہ

سید مولاناسلطان محمد آغا (آغا جان صاحب)

نواں کلی، کوئٹہ

سید احمد جان آغا  (سپین آغا)

بلیلی، کوئٹہ

سیدمولانا عبد الصمد آغا  (صاحب آغا)

کلی ناخیل، کچلاک، کوئٹہ

سید جان محمد آغاؒ (شہید)
سیدبخت محمدآغاؒ (شہید)
سید عبد المتین آغا (ھاشمی آغا)

نواں کلی، کوئٹہ

سیدمولانا عبد الاحد آغاؒ عرف لالک آغاکے سات صاحبزادے ہیں، جن کی تفصیل بالترتیب حسب ذیل ہے:سید باچاآغا،سید شاہ آغا،سید محمد شفیق آغا،سید محمد صدیق آغاؒ   (شہید)،سید محمد رفیق آغا،سید محمد عتیق آغا اور سید محمد مزمل آغا۔


[1]  یہ تاریخ وفات آپؒ کے چھوٹے بھائی معروف عالم و شاعرسید بہائی جان آغاؒنے بیان کیا ہے وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ : برخواطر صاحب نظران پوشیدہ مباد کہ بہائی (سید بہائی جان آغا)درحین وفات قبلہ امجدخویش بعمر پنج سالہ بود۔( سید بہائی جان آغا،نارنور،مکتبہ بنوریہ،میکانگی روڈ، کوئٹہ،قلمی نسخہ 1369شمسی، ص73)سید بہائی جان آغاؒ کی تاریخ پیدائش (جو ان کے قبر پر لکھی گئی ہے وہ ) 1272 شمسی  بمطابق 1893ء ہے، لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سید مولانا محمدیار آتش نفسؒ کی تاریخ وفات 1277شمسی بمطابق 1898ء ہے۔لیکن اس میں تضاد  اس وقت پایا جاتا ہے کیونکہ سید بہائی جان آغا نے خود ہی ایک جگہ لکھا ہے کہ: روز یکہ سراج الملت ولدین امیرحبیب اللہ خان شہید برسرتخت خلافہ دارالامارہ کابل ولی عہد پدر خویش جلوس نمود،آتش نفس مرحوم خطبہ را بزبان فصیح وآواز بلند درسلامخانہ ارگ شاہی خواند واورا مبارکباد گفتہ وہم از نزد شاہ نوجوان رخصت حج طلب کردہ بعزم سفر مکہ معظمہ بہ آن طرف حرکت نمود بعد از اختتام ارکان حج وفات یافت۔( سید بہائی جان آغا،نارنور،مکتبہ بنوریہ،میکانگی روڈ، کوئٹہ،قلمی نسخہ 1369شمسی، ص93) اس کے مطابق پھر سید مولانامحمدیار آتش نفسؒ کی تاریخ وفات 1281شمسی بمطابق 1902ءبنتا ہے کیونکہ امیرحبیب اللہ خان 1901ء میں ولی عہد افغانستان بنے تھے۔ اس تضاد کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتاہے کہ شاید سید بہائی جان آغا کے وارثین نے آپ کے تاریخ پیدائش کو ان کے قبر پر سہوا غلط کندہ کیا ہے اور سید بہائی جان آغا کی تاریخ پیدائش 1276شمسی ہی بنتاہے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کاتب نے76 12 شمسی کو غلطی سے 72 12 لکھا ہو، یہی آخری توجیہ قابل قبول ہے۔ اسی کے مطابق  پھر سید مولانامحمدیار آتش نفسؒ کی صحیح اور درست تاریخ وفات 1281شمسی بمطابق 1902ءبنتا ہے،لہذا اس طرح سے تعارض بھی رفع ہوجائے گا۔

[2] امیر عبد الرحمن خان1880 تا 1901 تک افغانستان کے امیر تھے۔ وہ محمد افضل خان کے تیسرے اور دوست محمد خان کے پوتے تھے۔ امیرعبد الرحمن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھوں نے دوسری افغان انگریز جنگ کے بعد افغان حکومت کی رٹ بحال کی نیز انھیں آہنی امیر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے جس کی وجہ قبائلی بغاوتوں کو کچلنے میں ان کی بے شمار کامیابیاں تھی۔

[3]  امیر حبیب اللہ خان ،والئی افغانستان امیر عبدالرحمن کے بڑے بیٹے اور غازی امان اللہ خان کے والد تھے۔آپ نے 1901 سے لے کر 1919 تک افغانستان پر حکومت کی۔ ان کے عہد میں انگریزوں نے افغانستان کی خارجی اور داخلی امور میں کامل آزادی تسلیم کر لی۔1905ء میں ہندوستان کا سفر کیا اور اسلامیہ کالج لاہور کا سنگ بنیاد رکھا، کالج کا حبیبیہ ہال ان کے نام سے منسوب ہے۔ ان کے زمانے میں افغانستان میں ڈاکٹری علاج شروع ہوا۔ مغربی طرز کے مدرسے کھولے گئے اور پن بجلی گھر قائم ہوا۔

[4] سید بہائی جان آغا،نارنور،مکتبہ بنوریہ،میکانگی روڈ، کوئٹہ، (قلمی نسخہ 1369شمسی)، ص87، بحوالہ سید محمد موسیٰ جان آغا، لباب الالباب،قلمی مخطوطہ ، محفوظ  خانوادہ آغو جان صاحب،آغوجان،غزنی۔

[5] سید بہائی جان آغا،نارنور،مکتبہ بنوریہ،میکانگی روڈ، کوئٹہ، (قلمی نسخہ 1369شمسی)، ص89، بحوالہ سید محمد موسیٰ جان آغا، لباب الالباب،قلمی مخطوطہ ، محفوظ  خانوادہ آغو جان صاحب،آغوجان،غزنی۔

[6] سورۃ الرحمن 55: 22

[7] سید بہائی جان آغا،نارنور، ص92، بحوالہ سید محمد موسیٰ جان آغا، لباب الالباب ۔

[8] ایضا