سیرندھری (1920ء ہندی فلم)
مہاراشٹرا فلم کمپنی، جسے 1918 میں بابو راؤ پینٹر نے قائم کیا تھا، کے زیر انتظام ہدایتکار، لکھاری و سنیماٹوگرافر بابو راؤ پینٹر کی پہلی فلم سیرندھری 7 فروری 1920ء میں جاری ہوئی۔ یہ فلم اُس سال (1920) کی سب سے کامیاب فلم تھی۔ ایس فتح لال اس فلم کے معاون سنیماٹوگرافر تھے۔ یہ ایک خاموش بلیک اینڈ وائٹ فلم تھی۔[1] اس فلم کا دورانیہ 1,511.2 منٹ تھا۔
سیرندھری | |
---|---|
ہدایت کار | بابو راؤ پینٹر |
پروڈیوسر | مہاراشٹرا فلم کمپنی |
تحریر | بابو راؤ پینٹر |
ستارے | بالا صاحب یادو(بھیم)، زنزاراؤ پوار(کیچک)، کملا دیوی(سیرندھری)،کشا باپو باکرے(راجا ویراٹ)، بابو راؤ پندھاکر(شری کرشنا)، روی مہاسکر، گنپت باکرے، سشیلا دیوی، سیتا رام پنت کلکرنی، شیو رام وشیکر اور وی جی داملے |
موسیقی | خاموش فلم |
سنیماگرافی | بابو راؤ پینٹر |
تاریخ نمائش | 7 فروری 1920 |
اداکار
ترمیمفلم کے اداکاروں میں درج ذیل ادا کار شامل تھے۔
- بالا صاحب یادو (بھیم)
- زنزاراؤ پوار (کیچک)
- کملا دیوی (سیرندھری)
- کشا باپو باکرے (راجا ویراٹ)
- بابو راؤ پندھاکر (شری کرشنا)
- روی مہاسکر، گنپت باکرے
- سشیلا دیوی
- سیتا رام پنت کلکرنی
- شیو رام وشیکر
- وی جی داملے شامل تھے۔
کہانی
ترمیمتقریباً 5 ہزار فیٹ ریل پر مشتمل اس فلم کی کہانی مہابھارت کی ایک داستان پر مبنی ہے۔ مہابھارت ہندوستان کی قدیم اور طویل ترین منظوم داستان ہے، جسے ہندو مت کے مذہبی صحائف میں معتبر حیثیت حاصل ہے۔ ضخامت کے لحاظ سے اس کے شلوک اٹھارہ جلدوں کے 25 لاکھ الفاظ پر مشتمل ہیں۔ مہا بھارت موضوع کے لحاظ سے انتہائی متنوع ہے جس میں جنگ، راج دربار، محبت، مذہب سبھی شامل ہیں۔ بالفاظ دیگر یہ چار بنیاد مقاصد حیات دھرم، ارتھ، کام، موکش سبھی کا مرکب ہے۔ اسی کے مطابق مہابھارت کے عہد میں ایک راجا ویراٹ تھا جس کی سلطنت بیراتنگر (موجودہ نیپال) میں تھی اور اس کی ایک بڑی فوج تھی۔ اگیات واس (مہابھارت میں پانڈووں کے دنیا سے کٹ کر چھپے رہنے کا دور ) کے دورا ن جب پانڈو اپنے پہلے سال راجا ویراٹ کے یہاں گزار رہے تھے۔ وہاں دروپدی سیرندھری نام کی ایک داسی کے روپ میں بادشاہ ویراٹ کی بیوی سدیشنا کی خدمت میں کام کر رہی تھی۔ راجا ویراٹ کا سالا کیچک، سیرندھری یعنی دروپدی پر بُری نظر رکھتا تھا اور سیررندھری کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ ایک دن راجا ویراٹ کے محل میں کیچک نے موقع پاکر دروپدی کے ساتھ بردستی کرنے کی کوشش کی تو بھیم (پانڈوؤں میں پانچ بھائیوں میں سے ایک) نے کیچک کا قتل کرکے دروپدی کی عزت بچائی۔ اس فلم کو دوبارہ 1933ء میں وی شانتا رام نے بنایا تھا۔[2]