شہر خالی جاده خالی، افغان شاعر اور موسیقار امیر جان صبوری کا لکھا ایک بے مثل فارسی نغمہ ہے۔ اس شہرہ آفاق نغمے کو تاجک گلوکارہ نگارہ خالاوہ نے گایا ہے۔

نغمہ

ترمیم

شہر خالی، جادّه خالی، کوچه خالی، خانه خالی

جام خالی، سُفره خالی، ساغر و پیمانه خالی

کوچ کرده، دسته دسته، آشنایان، عندلیبان

باغ خالی، باغچه خالی، شاخه خالی، لانہ خالی

.................

شہر خالی،رستہ خالی،محلہ خالی،گھر خالی

پیالہ خالی،میز خالی،ساغرو پیمانہ خالی

ہمارے دوست و بلبلیں گروہ در گروہ کوچ گئے

باغ خالی باغیچہ خالی شاخیں خالی گھونسلے خالی

..................

وای از دنیا که یار از یار می‌ترسد

غنچه‌های تشنه از گلزار می‌ترسد

عاشق از آوازهٔ دلدار می‌ترسد

پنجهٔ خنیاگران از تار می‌ترسد

شه‌سوار از جادهٔ هموار می‌ترسد

این طبیب از دیدن بیمار می‌ترسد

................

افسوس اس دنیا پر کہ جہاں دوست دوست سے ڈر رہا ہے

جہاں پیاسے پھول باغ ہی سے ڈر رہے ہیں

جہاں عاشق اپنے دلدار کی آواز سے ہی ڈر رہا ہے

جہاں موسیقاروں کے ہاتھ تارِساز سے ڈر رہے ہیں

شہسوار آسان و ہموار رستے سے ڈ ر رہا ہے

یہ طبیب بیمارکو دیکھنے سے کترا رہا ہے

................

سازها بشکست و دردِ شاعران از حد گذشت

سال‌های انتظاری بر من و تو برگذشت

آشنا ناآشنا شد

تا بلا گفتم بلا شد

..................

سر بکھیرنے والے ساز ٹوٹ چکے ہیں اور شاعروں کا درد حد سے تجاوز کر گیا ہے

تمھارے میرے انتظار کے کئی کربناک سال بیت چکے ہیں

آشنا نا آشنا میں بدل چکے ہیں

جسے عذاب کہا وہ وارد ہو چکا

.................

گریه کردم، ناله کردم، حلقه بر هر در زدم

سنگ سنگِ کلبهٔ ویرانه را بر سر زدم

آب از آبی نجنبید

خفته در خوابی نجنبید

.................

میں بہت رویا ہر در پر دستک دی اور اس ویرانے کے پتھروں سے سر پھوڑا

جیسے پانی نہیں جانتا اس ک گہرائی کتنی ہے

ایسے ہی کوئی خوابیدہ نہیں جانتا وہ کیسی گہری نیند سو رہا ہے.

...................

چشمه‌ها خشکید و دریا خستگی را دم گرفت

آسمان افسانهٔ ما را به دستِ کم گرفت

جام‌ها جوشی ندارد، عشق آغوشی ندارد

بر من و بر ناله‌هایم، هیچ‌کس گوشی ندارد

..................

چشمے سوکھ گئے،دریا حالِ خستگی سے دوچار ہے

آسماں نے بھی میرے افسانے کو بے وقعت جانا

جام بے اثر ہو گئے گرمی سینہ عشق ماند پڑ گئی

کسی ایک شخص نے بھی مجھ اور میرے نالوں کی طرف معمولی دھیان بھی نہیں دیا

....................

بازآ تا کاروانِ رفته باز آید

بازآ تا دلبرانِ ناز ناز آید

بازآ تا مطرب و آهنگ و ساز آید

کاکل‌افشانم نگارِ دل‌نواز آید

بازآ تا بر درى‌ حافظؒ اندازيم

گل بیفشانیم و می در ساغر اندازیم

........................

لوٹ آ تا کہ روانہ ہو چکا کارواں بھی لوٹ آئے

لوٹ آ تاکہ دلبران ِناز کے ناز دوبارہ لوٹ آئیں

لوٹ آ کہ دورِگلوکار و موسیقی و ساز پھر لوٹ آئے

اپنی زلفوں کو مہرِجاناں کے استقبال میں پھیلا دو

لوٹ آ تا کہ ہم حافظؒ کے در پر سر جھکا سکیں

گل فشانی کرتے اور ساغر بھرتے ہوئے۔