شور کوٹ
شور کوٹ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک شہر ہے جو کے ضلع جھنگ میں واقع ہے۔ یہ تحصیل شورکوٹ کا صدر مقام ہے۔ اس میں 29 یونین کونسلیں ہیں۔ یہ شہر صوفی بزرگ سلطان باہو کے مزار کی وجہ سے مشہور ہے۔ قلعہ شورکوٹ کی بنیاد مشہور راجا اشور نے رکهی تهی اس لیے علاقے کو شورکوٹ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یعنی شور کا لفظ اشور سے ماخوز ہے۔. جبکہ کوٹ لفظ کے معانی قلعہ،حصار،گڑھ یا شہر پناه ہے۔ شورکوٹ کا مطلب اشور کا قائم کرده قلعہ یا شہر ہے۔ اس شہر سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر شور کوٹ چھاؤنی اور شور کوٹ چھاؤنی جنکشن ریلوے اسٹیشن واقع ہے۔
شہر | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | پنجاب |
ضلع | جھنگ |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
تاریخ
ترمیم325 قبل مسیح سکندر اعظم جب ہندوستان پہ حملہ آور ہوا تو شورکوٹ بھی آیا۔ اس شہر کی روحانی اہمیت بھی بڑی اہم ہے۔ حضرت سلطان باہو کے والد حضرت ابو زید محمد اور والدہ حضرت بی بی راستی صاحبہ کے مزارات اس شہر میں ہونے کی بنا پر اسے مائی باپ کاشہر بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ کا جاٸزہ لیں تو شورکوٹ کے مختلف پرانے نام ہیں سمیر کوٹ، آشور کوٹ، ایشور کوٹ، شیو کوٹ، سور کوٹ، شور کوٹ وغیرہ ہیں۔ شور کوٹ میں موجود کھنڈر ثابت کرتے ہیں کہ 10 ہزار سال قبل مسیح میں بھی یہاں زندگی کے آثار موجود تھے اور تاریخ میں یہ بات درج ہے کہ یہ شہر قدیم ترین قبائل سمیریوں، بابلیوں اور آشوریوں کے تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ شہر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ فرعون سیاستریس نامی سپہ سالار نے اس کی بنیاد 10 ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے رکھی اور اپنے خدا کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اسے ایشور کوٹ کا نام دے دیا لیکن اس بارے میں کوئی واضح تاریخی حوالہ نہیں ملتا۔ شور کوٹ میں داخل ہوتے ہی قدیم قلعہ "بھڑ" کے آثار واقع ہیں جو سمیری قبائل نے آباد کیا اور یہ قلعہ سمیریوں کے بعد کئی دیگر قدیم قبائل آریا، بھیل، دراوڑ اور آشوریوں کا مسکن رہا۔ 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم جب ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ کئی علاقوں سے ہوتا ہوا شورکوٹ پہنچا اس وقت یہاں کٹھیٹھ اور مل قبائل آباد تھے ۔ مؤرخین لکھتے ہیں سکندر یونانی دو ماہ تک اس قلعے کا محاصرہ کرنے کے باوجود اسے فتح نہ کر سکا تو غصے سے سیخ پا ہو کر اسے بھاری منجنیقوں کی مدد سے تباہ کر دیا۔ (بھڑ کا مطلب تباہ ہونا ہے) سکندر یونانی کے غیظ و غضب سے بچ جانے والوں نے قلعے کے شمال میں مختلف جگہوں پر اپنی الگ سے بستیاں آباد کر لیں۔ تاریخ دان یعقوبی لکھتے ہیں محمد بن قاسم نے جب 712 میں سندھ کو فتح کیا تو اس نے سندھ سے چینوٹ تک کی مختلف ریاستوں کو پانچ صوبوں میں تقسیم کر دیا۔ جن کو روڑ (روہڑی)، ملتان، برہما پور (شورکوٹ)، جندور (چنیوٹ ) کوٹ کروڑ کے نام دیے گئے۔
محمد بن قاسم کے دور میں پہلی بار شورکوٹ کو صوبے کا درجہ دیا گیا اور اس کا پہلا مسلمان گورنر جلال الدین محمود غازی کو بنایا۔ یہاں سے شور کوٹ میں مسلمان دور کا آغاز ہوا۔ محمد بن قاسم کے علاوہ یہ علاقہ عباسی اور فاطمی خلافتوں کا حصہ بھی رہا۔ بلال زبیری لکھتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہد میں شورکوٹ، جھنگ اور کوٹ کروڑ کو صوبہ ملتان میں شامل کیا گیا۔ شاہجہاں نے ہی حضرت سلطان باہو کے والد کو ان کی اسلامی خدمات کے صلہ میں قلعہ قہرگان کے قریب دریائے چناب کے کنارے جاگیر دی جس میں شور کوٹ کا بھی کچھ حصہ شامل تھا۔ محققین کے مطابق صوفی بزرگ سلطان باہو کی پیدائش بھی شور کوٹ میں ہوئی جنھوں نے اپنی تصانیف میں اس علاقے کا نام قلعہ قہرگان اور شور شریف لکھا ہے انگریزوں کے آنے سے پہلے راجا رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں شور کوٹ کو ضلع جھنگ کی تحصیل بنا کر اس علاقے کی اہمیت اور مرکزی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ انتطامی تبدیلیاں کی گئیں۔ 1908ء میں شہر سے 11 میل پہ ریلوے لاٸن بچھاٸی جسے دو سال بعد ہی جنکشن کا درجہ دے دیا گیا۔ جس سے کراچی تا پشاور ریلوے لائن کی آمدورفت ممکن ہوئی۔ 1965ء کی جنگ کے دو سال بعد پاک فضائیہ نے شورکوٹ میں ائیربیس قاٸم کی اور کینٹ کا درجہ دیا۔ شور کوٹ دو حصوں، شور کوٹ شہر اور شور کوٹ کینٹ میں تقسیم ہے۔ اگرچہ یہ شہر مختلف ادوار میں کئی تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اور تاریخی اعتبار سے بھی یہ شہر پاکستان کے دیگر تاریخی شہروں سے پرانا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر نہیں کیا گیا نا ہی یہاں سے ملنے والی تاریخی نوادرات کے لیے ایک میوزیم بنا کے اس کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔