شولام ویس (جسے کبھی کبھار متبادل طور پر شالوم ویس بھی لکھا جاتا ہے؛ تاریخ پیدائش یکم اپریل، 1954ء) ریاستہائے متحدہ امریکا کا تجارت پیشہ شخص ہے، وہ موجود طور ایف سی آئی اوٹیسویل، نیو یارک میں مقید ہے۔

ایف بی آئی کی مطلوبہ مجرم پوسٹر سے ماخوذ تصویر
پیدائش (1954-04-01) اپریل 1, 1954 (عمر 70 برس)
بروکلین، نیو یارک، ریاستہائے متحدہ امریکا
اقامتویانا، آسٹریا
قومیتامریکی شہری
Employerنیشنل ہیری ٹیج لائف انشورنس
وجۂ شہرتبیمہ کا دھوکا
مجرمانہ الزامریاکٹ دھوکا، ڈاک پیام دھوکا اور منی لانڈرنگ کی 78 وارداتیں
مجرمانہ سزا845 سال کی قید، $123.4 ملین جرمانہ، $125 ملین کی بازادائیگی (سزا میں تخفیف کرتے ہوئے 835 سال 2011ء میں کر دی گئی ہے)
مجرمانہ حیثیتفیڈرل کریکشنل انسٹی ٹیوشن، اوٹیسویل؛ اوٹیسویل، نیو یارک میں مقید ہے۔ متوقع رہائی کی تاریخ: نومبر 23، 2754ء

15 فروری، 2000ء کو فلوریڈا (آرلینڈو) کی ایک درمیانی ضلعی عدالت نے ویس کو غیر حاضری 845 سال کی سزا سنائی۔ یہ سزا ریاکٹ دھوکا، برقی پیام دھوکا اور منی لانڈرنگ کی 78 وارداتوں کے لیے دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی $125,016,656 کی بازادائیگی کا حکم دیا گیا جو خود سے منسوب نقصان کی کل لاگت تھی۔ اس کے علاوہ $123,399,910 کا جرمانہ بھی دیا گیا جو اس کی وجہ سے نیشنل ہیری ٹیج لائف انشورنس کمپنی کے دیوالیہ ہونے کی وجہ سے اس پر عائد ہوا۔[1][2]

28 جولائی، 2016ء کو حکومت نے اعلان کیا کہ ویس کی $125 ملین کی بازادائیگی مکمل طور پر ادا ہو چکی ہے۔[3]

نیشنل ہیری ٹیج لائف انشورنس کمپنی کا دیوالیہ ہونا اپنے وقت میں سب سے بڑی بیمہ کمپنی کا ناکام ہونا سمجھا گیا ہے۔[4] ویس خود پر مقدمے کے اخیر میں ملک سے بھاگ گیا اور ایک سال تک فراری بنا رہا۔ بالآخر اسے آسٹریلیا سے امریکا کو بہ طور مجرم حوالہ کیا گیا۔

ویس کو دی گئی سزا کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ کسی بھی سفید کالر جرم کو دی جانے والی سب سے بڑی سزا پے۔[4] یہ سمجھا گیا ہے کہ یہ سب سے لمبی مجرمانہ سزا ہے (بہ استثنائے سزائے عمر قید) جو امریکا کی تاریخ میں وفاقی سطح پر دی گئی ہے۔[5] متذکرہ کمپنی کی تباہی کے سلسلے میں ایک درجن سے زائد افراد مجرمانہ وابستگی کی وجہ سے سزا پا سزا پا چکے ہیں۔ ایک اور شخص کیتھ پاؤنڈ کو 750 سال کی سزا ملی اور $139 ملین کی بازادائیگی کا حکم دیا گیا۔ پاؤنڈ 2004ء میں قید میں ہی 51 سال کی عمر میں گذر گیا۔ فیڈرل کوآپریٹرز مائیکل بلوٹریک اور لائل فیفر کو مخففہ سزائیں 200 مہینوں (16 سال، 8 مہینوں) کی دی گئی۔[6] ان لوگوں نے اپنی میعادیں وفاقی گواہ کے تحفظ پروگرام کے تحت مکمل کیا۔

ویس کو آسٹریا میں دبوچ لیا گیا اور بین الاقوامی گرفتاری وارنٹ کی تعمیل میں امریکا لایا گیا۔ اسے گرفتاری کے ملک میں امریکا کو حوالگی کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کیوں کی یہ ایک لمبی مسلمہ نظیر رہی ہے کہ فراری مجرمین جو عدالتوں کی حاکمیت کو پامال کرتے ہیں وہ اپیل کرنے کا حق کھو دیتے ہیں۔[7]

ابتدائی زندگی ترمیم

ویس بورو پارک،پروکلن میں پرورش پایا۔ یہاں اس کے والد پھلوں کا ٹھیلا چلاتے تھے۔ اس کی پیدائش اور پرورش یہودی کے طور پر ہوئی تھی۔ اس کی تعلیم ایک ییشیوا میں ہوئی، جہاں وہ یدیش میں گفتگو کرتا تھا اور اسے ہائی اسکول کے مساوی تعلیم حاصل ہوئی۔ اس نے تیرہ سال سے پہلے انگریزی نہیں سیکھی۔ وہ ایک جوان آدمی کے طور پر تعمیراتی کام کرنے لگا اور پلمر کے کام کی سربراہی کی کمپنی قائم کیی۔[5]

اپنی پلمبر کی سربراہی کمپنی کے دیوالیہ پن کے بعد ویس خود کو دیوالیہ پن کے ماہر خصوصی کے طور پر پیش کرنے لگا۔ اسی کاروبار کے ذریعے وہ مائیکل ڈی بلوٹریک سے ملا جو ایک ٹاپ لیس کلب اسکورز کا مالک تھا، جسے اس وقت گیمبینو مجرمانہ خاندان چلاتا تھا۔

1994ء میں ویس کو ڈاک پیام دھوکے میں خاطی پایا گیا، جس کی پاداش میں اسے آٹھ مہینے قید میں بتانا پڑا۔[5]

نیشنل ہیری ٹیج انشورنس ترمیم

1989ء کے اواخر میں نیشنل ہیری ٹیج نے اطلاع دی کہ وہ گھاٹے پر چل رہا ہے اور بِکری میں کمی کی وجہ سے سرمایہ 27% کم ہو چکا ہے اور 1990ء انشورنس ریگولیٹروں نے دھمکی دی کہ کمپنی مسدود ہو گی اگر وہ زائد سرمایہ لا نہ سکے۔[8] سرمایہ کاروں کے ایک گروہ نے 4 ملین ڈالر کا چیک پیش کیا، مگر جب یہ ایک بار نیشنل ہیری ٹیج کی گرفت میں آیا، $3 ملین کو نیشنل ہیری ٹیج سے تبادلہ کر دیا گیا تاکہ چیک کو چھپایا جا سکے۔[9] اس کے ساتھ ہی ایسی کئی اسکیمیں شروع ہوئی جن کی وجہ سے کمپنی سے سرمایہ کار کئی ملین چرا سکے۔ مزید یہ کہ خراب سرمایہ کاری نیشنل ہیری ٹیج کے سرمائے کو مزید خاتمے کی طرف کے جاتی رہی۔[10]

1993ء میں یہ گروہ اس فیصلے پر پہنچا کہ تمام کھوئے ہوئے پیسے کی پابجائی “رہن پر مبنی بانڈ اسکیم“ کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ ویس (جو اصل سرمایہ کاری گروہ کا حصہ نہیں تھا)، سے کہا گیا کہ وہ معاہدے کے تحت چھوٹ پر ملنے والے رہن کو نیشنل ہیری ٹیج انشورنس کے پیسوں سے خریدے، جسے بعد میں رہن پر مبنی بانڈ کا حصہ بنایا گیا تھا۔[11] یہ سمجھا جاتا ہے کہ چھوٹ کے ساتھ رہن کو بازیاب کیا جا سکتا ہے اور اس طرح منافع کمایا جا سکتا ہے۔ بانڈ کو دھوکے سے نیشنل ہیری ٹیج انشورنس کے کھاتوں میں بڑھی ہوئی قیمتوں کے ساتھ لکھا گیا۔[12]

1994ء میں ڈیلاویر کے بیمہ محمکمے نے کمپنی کا مکمل جائزہ لیا اور اسے دیوالیہ پاکر ریسورشپ کے حوالے کیا۔ تین کارپوریشنوں اور 13 افراد کو سزا دی گئی، جس میں ویس بھی شامل تھا۔[13][14]

مالیاتی جرائم کے ایف بی آئی صدر نے 2001ء میں بیان دیا تھا کہ نیشنل ہیری ٹیج انشورنس کمپنی ریاستہائے متحدہ کی تاریخ میں سب سے بڑی ناکامی تھی، جس کی وجہ سے $450 ملین کے نقصانات ہوئے۔[4] 2000ء کے نیو یارک ٹائمز مضمون کے مطابق ویس “غیر معمولی دھوکے کی اسکیم جس سے ایک دھن کی شکل میں $450 ملین پھونک دیے گئے،“ میں ویس بھی ایک اہم حصہ تھے۔[5] تاہم "بیسٹ ریویو" کے مطابق، جو بیمہ صنعت کا ایک ماہنامہ ہے، یہ توضیح پیش کی گئی کہ نقصانات خردبرد اور خراب سرمایہ کاری کی وجہ سے تھے۔[15]

کمپنی پر تالا لگانے کے دوران اس کے پاس $420 ملین کی مالی ادائیگی پالیسی گیرندوں پر واجب تھی، جسے ریاستی گارنٹی فنڈ سے پورا کیا گیا۔[16] جس وقت نیشنل ہیری ٹیج انشورنس کمپنی ریسیورشپ کے حوالے کی گئی، 1994ء میں، اس کے پاس 214 ملین کے اثاثے موجود تھے، جیساکہ ڈیلاویر کورٹ آف چانسری نے اپنے تالابندی حکم دیتے ہوئے پایا۔ لہٰذا $450 ملین کا ہندسہ ذرائع ابلاغ کی خبروں میں چھا گیا اور ایف بی آئی نے کمپنی کی واجب الادا رقموں کے لیے کمبنی کے اثاثہ جات سے وصول کرناتھا، جس سے $230 ملین ڈالر حاصل ہوئے جو مطلوبہ رقم کا 54% تھے۔ حکومتی گارنٹیوں سے باقی رقم جوڑکر 2000ء سبھی پالیسی گیرندوں کو رقمیں ادا کی گئی تھی۔[17]

ویس کا خاطی پایا جانا اور اسے 845 سالوں کی سزا ترمیم

18 اکتوبر 1999ء کو، نو مہینے کی مقدمے کی کارروائی کے بعد بھی ویس جیوری کے سامنے بحثوں کے دوران آنے سے قاصر رہا[2] اور اسے قرار دیا گیا۔ نیشنل ہیری ٹیج انشورنس سے جڑے الزامات کے معاملوں میں جج پیٹریشیا سی فاسیٹ نے اسے 845 سال قید کی سزا سنائی۔ فاسیٹ 845 کے عدد تک کئی مختلف معاملوں میں سزاؤں کو جوڑکر پہنچا گیا جن میں 5 سے 20 سال تک سزائیں دی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ قید میں ہی شاید مر جائے۔ فاسیٹ کا کہنا تھا کہ وہ یہ سزا اس لیے سنا چکی ہیں کیوں کہ اس میں وہ "وسیع پیمانے اور مکرر" فطرت کو مد نظر رکھا گیا ہے جس سے کہ ویس نے دھوکے کے کاموں کو انجام دیا ہے اور ویس کی "قانون کی ان دیکھی" اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ مستقلًا سماج سے دور کر دیا جائے۔ فاسیٹ اس بات سے بھی مزید فعال اور فکرمند تھی کہ وفاقی وکلا نے یہ دعوٰی کیا کہ ویس نے ان لوگوں کو دھوکا دہی پر آمادہ کیا جو شاید اپنے طور پر اس اسکیم میں کسی کو دھوکا نہیں دیتے۔ اس نے ویس پر $123.4 ملین کا جرمانہ عائد کیا اور اسے $125 بازادائیگی کے طور پر دینے کا حکم دیا۔ ویس سے کچھ کم سزا فاسیٹ نے جرم میں معاون کیتھ پاؤں ڈ کو 740 سال قید کے طور پر دی۔[5][18]

آسٹریا سے حولگی ترمیم

ویس کو بالآخر آسٹریا کے ذمے داروں کی جانب سے 2000ء کے موسم خزاں میں پکڑ لیا گیا جب یورپی انسانی حقوق کی عدالت اور اقوام متحدہ نے اس کی حوالگی نہیں روکی۔[19][20]

قید اور بعد کی کارروائی ترمیم

ویس نے اپنی قید کی میعاد کو ایک وفاقی عدالت میں چیلنج کیا، جس میں دعوٰی کیا گیا کہ ریاستہائے متحدہ نے آسٹریا کے ساتھ اپنے تحویل مجرمین معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ چونکہ عدالتیں دوبارہ سزا سنانے اور اپیل کا موقع نہیں دے سکتی ہیں، ویس نے دلیل پیش کی کہ معاہدے کے قانون کے تحت ریاستہائے متحدہ کی ایگزیکیٹیو شاخ کو پھر بھی دوبارہ سزا سنانے اور اپیل کرنے کا موقع دینا چاہیے اور اس کے ساتھ یہ ناانصافی ہوئی ہے کہ فراری کی عدم مسموعیت نظریے کے تحت یہ موقع نہیں دیا گیا ہے۔[19] 2011ء میں ایک جج سزا میں کمی کرتے ہوئے کل قید کی میعاد سے دس سال کم کر دہے۔[21] ویس موجودہ طور پر سزا ایک اوسط حفاظتی قید میں کاٹ رہا ہے۔ اس کی امکانی رہائی کی تاریخ 23 نومبر، 2754ء ہے۔[22]

حوالہ جات ترمیم

  1. United States v. Weiss, Case No. 6:98-cr-99-PCF-KRS. Judgment Doc. 1372.
  2. ^ ا ب Whitney, Sally (ستمبر ستمبر)۔ "Anatomy of a Failure" (PDF)۔ Best's Review۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2007 
  3. Notice to the court, filed by the U.S. Attorney for the Middle District of Florida, to the Middle District Court of Florida. United States v. Weiss, Case No. 6:98-cr-99-PCF-KRS. Doc. 2446.
  4. ^ ا ب پ "Testimony of Dennis Lormel, Section Chief, Financial Crimes, Before the House Financial Services Committee, مارچ 6, 2001"۔ FBI۔ 2001-03-06۔ مئی 12, 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2009 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ William K. Rashbaum (9 مارچ 2000)۔ "845 Years in Prison, If the Authorities Can Catch Him; F.B.I. Says Fugitive Has a Flair For Fraud and Hiding Stolen Cash"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2009 
  6. United States District Court, MDFL, Case No. 97-71-CR-ORL-22
  7. Report on the situation of fundamental rights in Austria 2003 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ cridho.cpdr.ucl.ac.be (Error: unknown archive URL)، EU Network of Independent Experts on Fundamental Rights, جنوری 2004ء، [accessed 8 جولائی 2009ء]
  8. Sally Whitney, Anatomy of a Failure, Best’s Review, Sept. 2000, p. 96.
  9. Sally Whitney, Anatomy of a Failure, Best’s Review, Sept. 2000, p. 97.
  10. Sally Whitney, Anatomy of a Failure, Best’s Review, Sept. 2000, pp. 97-98.
  11. Sally Whitney, Anatomy of a Failure, Best’s Review, Sept. 2000, p. 100.
  12. Sally Whitney, Anatomy of a Failure, Best’s Review, Sept. 2000, p. 100.
  13. Sally Whitney, Anatomy of a Failure, Best’s Review, Sept. 2000, pp. 100-101.
  14. Susan Clary, Orlando Sentinal, 2000 http://articles.orlandosentinel.com/2000-02-16/news/0002150484_1_fawsett-weiss-heritage-life-insurance آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ articles.orlandosentinel.com (Error: unknown archive URL)
  15. Sally Whitney, Anatomy of a Failure, Best’s Review, Sept. 2000, pp. 96-99
  16. Sally Whitney, Anatomy of a Failure, Best’s Review, ستمبر 2000, p 96.
  17. Sally Whitney, Anatomy of a Failure, Best’s Review, Sept. 2000, p. 104
  18. Clary, Susan. Insurance Crooks To Serve Life - Plus آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ articles.orlandosentinel.com (Error: unknown archive URL). Orlando Sentinel, 2000-02-16.
  19. ^ ا ب United Nations High Commission on Human Rights (2003-05-15)۔ "Communication No 1086/2002 : Austria. CCPR/C/77/D/1086/2002. (Jurisprudence)"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2007 
  20. Parliamentary Assembly (2003-04-01)۔ "Extradition of Sholam Weiss"۔ Council of Europe۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2007 
  21. Daniel Roberts (July 7, 2014)۔ "Orange is the New White-Collar"۔ Fortune۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اکتوبر 2015 
  22. "U.S. Bureau of Prisons Inmate Locator"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2009 

بیرونی روابط ترمیم