شکنتلا (1920ء فلم)

1920ء کی بھارتی ہندی فلم

شکنتلا 1920ء کی مقبول ہندی فلم تھی، جس کے ہدایت کار سچیت سنگھ تھے اور۔ سنیماٹوگرافر بیرن فان رائے ون اور رائے واؤگن تھے۔ یہ پہلی ایسی ہندوستانی فلم تھی جس میں پہلی بار ایک بین الاقوامی اداکارہ، امریکی اداکارہ ڈوروتھی کنگڈم نے کام کیا۔[1]

فائل:Shakuntala 1920.jpg
شکنتلا (1920) فلم کا منظر

اداکار

ترمیم

ڈورتھی کنگڈم کے علاوہ اس فلم میں گوہر جان، سیمسن،مسز ستریا، کانجی بھائی راٹھور، دادی بھائی سرکاری، خورشید جی انجینئر، سائنورینا البرٹینی، آئزک سائمن، ریوا شنکر شامل تھے۔ فلم کے اداکاروں اور عملے میں کئی افراد غیر ہندوستانی تھے، اس بات کو کئی اخبارات خاص طور پر 24 جنوری 1920ء کی بمبے کرانیکل کی اشاعت میں تنقید کا نشانہ بنایا اور شری ناتھ پٹناکر نے ہندوستانی عملہ اور اداکاروں کے سات اس فلم کے مدمقابل اپنی فلم ریلیز کرنے کا اعلان کیا۔ دونوں فلمیں ایک ہی سال میں ریلیز ہوئیں مگر سچیت سنگھ کی فلم زیادہ کامیاب رہی ۔[2]

کہانی

ترمیم

فلم کی کہانی سنسکرت کلاسیکی ادب میں عظیم شاعر اور ڈراما نویس کالی داس کے ایک طویل منظوم ڈرامے پر مشتمل ہے۔ شکنتلا ، وشوا متر اور اپسرا مینکا کی بیٹی تھی، مگر کسی وجہ سے اسے جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے، وہاں سے ایک رشی(سادھو) کنو اس کی پرورش کرتا ہے۔ جب شکنتلا جوان ہوئی تو ایک روز راجا دشینت شکار کھیلنے اسی جنگل میں آتا ہے۔ جہاں شکنتلا کے حسن کو دیکھ کر شکنتلا سے گندھرو بیاہ کی کرلیتاہے، جو دونوں کے راضی ہونے پر بغیر برہمنی رسموں کے فوراً کیا جا سکتا ہے۔ شکنتلا نے اس شرط پر یہ درخواست منظور کرلی کہ اسی کی اولاد تخت و تاج کی وارث ہوگی۔ دشینت وعدہ کرتا ہے اور رخصت ہونے سے پہلے یقین دلاتا ہے کہ وہ بہت جلد شکنتلا کو محل میں بلوا لے گا۔ راجا دشینت ایک انگوٹھی یادگار کے طور پر شکنتلا کو دیتا ہے۔ ایک دن ایک سادھو کنو سے ملنے آئے جو گھر پر نہیں تھا۔ دن رات دشینت کی یاد میں کھوئی شکنتلا نے سادھو کا خیال نہ رکھا۔ اس بے ادبی پر سادھو نے بد دعا دی کہ اے لڑکی، جس شخص کے خیال میں تو اس قدر کھوئی ہوئی ہے ،وہ تجھے بھول جائے، ادھر راجا دشنت کے ذہن سے شکنتلا کا خیال نکل جاتا ہے۔ جب بہت دن گزرنے پر کوئی شکنتلا کو لینے نہ آیا اور تھوڑے دنوں میں شکنتلا کو معلوم ہوا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ تو شکنتلا نے خود راجا کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن راستے میں ایک تالاب میں شکنتلا کی انگوٹھی گر گئی،شکنتلا جب دربار میں پہنچی تو راجا اسے پہچان نہ سکا۔ شکنتلا انتہائی دُکھ اور بے سرو سامانی کی حالت میں دربار سے نکل آئی۔ کچھ مدت کے بعد بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بھرت رکھا گیا۔ اتفاق سے شکنتلا کی انگوٹھی ایک ماہی گیر کو مچھلی کے پیٹ سے ملی۔ وہ اسے بیچنے بازارگیا تو راجا کی انگوٹھی چرانے کے الزام میں پکڑا گیا، معاملہ دربار پہنچا۔ راجا نے انگوٹھی دیکھی تو اسے اپنا قول و قرار اور بیاہ یاد آیا اور شکنتلا کی تلاش شروع ہوئی، مگر وہ نہ ملی، آخر کار کافی عرصہ بعد ایک جنگل میں انھیں ڈھونڈلیا محل میں لے آیا اور تینوں کی باقی زندگی راحت سے گذری۔ یہی بھرت دشینت کے بعد اس کا جانشین ہوا اور اسی بھرت کی رعایت سے ہندوستان کا نام بھارت مشہور ہوا۔[3][4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. شکنتلا آئی ایم ڈی بی پر
  2. شکنتلا 1920ء - سنے ما
  3. "شکنتلا"۔ لالٹین 
  4. پربت کی بیٹی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iqbalcyberlibrary.net (Error: unknown archive URL) از چراغ حسن حسرت ،باب: شکنتلا ؛ اقبال سائبر لائبریری