شیخ سعدی بلخاری لاہوری سید آدم بنوری کے خلیفہ اعظم تھے۔ نقشبندی سلسلہ طریقت کے عابد و زاہد بزرگ اور مقامات عالیہ پر فائز تھے۔

ولادت

ترمیم

شیخ سعدی کی ولادت 1033ھ بمطابق 1623ء صوبہ بلخ کے علاقے مزار شریف کے مقام پر ہوئی۔ آبائی وطن افغانستان اور آبائی پیشہ کاشت کاری تھا۔

ان کا نام سعدی، کنیت ابو عیسیٰ والد کا نام ابدال تھا۔[1]

سید آدم بنوری کے خلیفہ

ترمیم

شیخ سعدی لاہوری کی پرورش بھی سید آدم بنوری نے کی تھی، پھر مرید اور خلیفہ بنایا۔ آپ مادر زاد ولی تھے اور طریقہ اویسی بھی رکھتے تھے۔ صاحب کرامات اور اخلاق حمیدہ تھے۔ اپنے شیخ کی محبت کو ایمان سمجھتے تھے۔[2]

حصول سلوک

ترمیم

تحقیقات چشتیہ میں شیخ سعدی لاہوری کا تذکرہ کچھ یوں ہے:

کتاب تذکرہ مناقب سید آدم میں لکھا ہے کہ شیخ سعدی بلخاری لاہوری سید آدم بنوری کے، خلیفہ تھے اور ابتدا میں فوج شاہجہاں بادشاہ میں نوکر تھے۔ بعد ازاں بخدمت شیخ اسد اللہ خلیفہ شیخ آدم بنوری حاضر ہو کر مرید ہو ئے ان کی توجہ سے بڑا استغراق آپ کے مزاج حق امتزاج میں ظاہر ہوا حتیٰ کہ رات دن مشغول بحق رہتے تھے۔ جب شیخ اسد اللہ نے آپ کو ایسا قابل مزاج پایا اور دیکھا کہ یہ شخص کچھ بننے والا ہے تو وہ ان کو بحضور مرشد اپنے یعنی سید آدم بنوری کے لے گئے اور بیعت کروائی پھر تو چند سال میں وہ اولیاء کاملین حق سے ہو گئے جب شیخ آدم بنوری براہ لاہور روانہ بیت اللہ ہوئے تو ان کو لاہور میں چھوڑ گئے اور ارشاد کیا کہ تو لاہور میں رہ اور خلق خدا کو دعوت بخدا کر‘‘۔

لاہور میں آمد

ترمیم

سید آدم بنوری کے حکم پر آپ نے علاقہ مزنگ کو اپنا مسکن بنایا اور تبلیغ دین میں زندگی بسر فرمائی۔ آپ چالیس سال تک لاہور اہل مزنگ کو اللہ کے قرب کی منزلوں کا پتہ دیتے رہے اور خلق خدا کو خالق کے قریب کرتے رہے۔

بچپن کا واقعہ

ترمیم

جناب شرف الدین مجددی کشمیری اپنی تصنیف ’’روضۃ السلام‘‘ میں شیخ سعدی بلخاری لاہوری کے حالات زندگی خود ان کی زبانی تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شیخ سعدی بیان فرماتے تھے کہ میری عمر تقریبًا آٹھ برس کی ہوگی کہ میں اپنے گاؤں کے پاس واقع کنویں پر وضو کر رہا تھا کہ ادھر سے حاجی سعد اللہ وزیر آبادی (حضرت اسد اللہ) گذرے جو حضرت آدم بنوری کے خلیفہ تھے اور بنور تشریف لے جا رہے تھے انھوں نے دیکھا کہ میں بڑی احتیاط سے وضو کر رہا ہوں تو بہت حیران ہوئے اور خوش بھی۔ پھر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اس چھوٹی سی عمر میں یہ بچہ کس قدر توجہ و احتیاط سے وضو کر رہا ہے، چند لمحوں تک انھوں نے میری طرف اپنی توجہ مرکوز رکھی پھر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آگے کی طرف چل پڑے میں نے ان کے بعض ساتھیوں سے ان کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ یہ حضرت حاجی سعد اللہ ہیں جو اپنے مرشد پاک کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کے لیے بنور تشریف لے جا رہے ہیں، یہ سن کو میرے دل میں بھی شوق نے سر ابھارا کہ ایسی بزرگ ہستی کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ چنانچہ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا حتیٰ کہ جب بنور پہنچے اور سید آدم بنوری نے میری طرف دیکھا تو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے حاجی سعد اللہ سے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ یہ لڑکا ہمارے ساتھ آیا ہے بلکہ یہ کہو کہ ہم اس کے ساتھ آئے ہیں یہ لڑکا تو ازلی سعادت مند اور بارگاہ الٰہی میں مقبول ہے اگر اللہ تعالیٰ روز محشر تمھیں بخشے گا تو اس کے سبب سے بخشے گا اس کے بعد انھوں نے میرا نام پوچھا تو میں نے اپنا نام سعدی بتایا آپ نے فرمایا تم جہاں کہیں بھی جاؤ اور جہاں کہیں بھی رہو سعد ہو دنیا میں بھی تو سعد ہو آخرت میں بھی۔

توجہ کامل کا اثر

ترمیم

آپ نقشبندی سلسلہ کے باکمال بزرگ تھے۔ بہت سے اولیاء کرام کی روحانیت سے آپ فیض یاب ہوئے۔

وفات

ترمیم

شیخ سعدی لاہوری نے چالیس سال تک لاہور میں طالبان حق کی رہنمائی فرمائی اور ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ کیا۔ بروز بدھ ماہ ربیع الثانی 1108ھ بمطابق 20 اکتوبر 1696ء میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں آپ کا وصال ہوا۔ مہابت خاں ابراہیم ان دنوں صوبہ لاہور میں تھا، آپ کا مزار مبارک سعدی پارک مزنگ لاہور میں واقع ہوا۔

صاحب تحقیقات چشتی جناب نور احمد چشتی نے آپ کا قطعہ وصال یوں رقم فرمایا ہے:

جناب سعد بلخار دل بیدار لاہوری
بود بر روح پاک او ہزاراں رحمت باری
چو از دنیائے دون آخر بجنت رفت چشتی
ندا آمد ز ھاتف زندہ دل سعدی بلخاری

(زندہ دل سعدی بلخاری = 1087) [3]

اولاد

ترمیم

شیخ سعدی بلخاری نقشبندی کے چار صاحبزادے تھے جو اپنے والد محترم سے فیض یافتہ تھے۔ ظاہری و باطنی علوم میں درجہ کمال پر فائز تھے۔ عبادت و ریاضت کے معاملے میں بہت بڑھے ہوئے تھے چاروں صاحبزادوں کے نام یہ ہیں، خواجہ محمد سلیم، خواجہ محمد عبد الغنی، خواجہ محمد عارف اور خواجہ محمد یوسف

حوالہ جات

ترمیم
  1. ماہنامہ الحق نومبر دسمبر 1980ء - ناشر : جامعہ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ پاکستان
  2. تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 46، محمد امیر شاہ قادری، مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور
  3. تحقیقات چشتی، نور احمد چشتی، پنجابی ادبی اکیڈمی لاہور