شیخ فیروز شہید مصنف اخبار اخیار شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے پر دادا تھے۔ ان کی مزار بہرائچ[1] میں ہے۔ اخبار اخیار میں شیخ عبد الحق محدث دہلوینے آپنے خاندان کے حالات شیخ فیروز شہید کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک موسیٰ کے کئی لڑکے تھے جن میں ایک کا نام شیخ فیروز تھا۔ شیخ فیروز میرے دادا کے حقیقی دادا تھے[1]۔ یہ شیخ فیروز تمام فضائل ظاہری و باطنی سے موصوف تھے۔ اور دینی وکسبی نعمتوں سے مالامال تھے۔ فن جنگ میں اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ جنگی ترکیبوں میں اپنی قوت طبع اور سلیقہ کے لیے بے نظیر تھے۔ علم شاعری م،دلیری ،سخاوت ظرافت ،لطافت،عشق ومحبت اور دیگر صفات حمیدہ میں یکتائے روزگار تھے۔ نیز دولت و حشمت،عزت وعظمت میں شہرۂ آفاق تھے۔ ہمارے گھر میں شریں کلامی ،ذوق و ظرافت آپ ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ آپ سلطان بہلول کے دور حکومت کے ابتدائی زمانہ میں بقید حیات تھے۔[1] آپ نے سلطان حسین شرقی کی آمد اور سلطان بہلول سے جنگ کا قصہ نظم کیا تھا۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی آگے لکھتے ہیں کہ یہ کلام ہمارے پاس تھا لیکن اس وقت نہیں ہے البتہ اس کے دو شعر یاد ہے جو سلطان بہلول کو حسین شرقی نے مخاطب کر کے کہے ہیں۔

شیخ فیروز شہید
مزار شیخ فیروز شہید بہرائچی
شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے جد امجد شیخ فیروز شہید کی مزار
پیدائششیخ فیروز
وفات860 ھ[1]
بہرائچ اتر پردیش بھارت
آخری آرام گاہبہرائچ اتر پردیش بھارت
پیشہ،
رشتہ دارشیخ عبد الحق محدث دہلوی
ایا قابض شہر دہلی شنو حیاتت چو خواہی ازیں جابرو
منم قابض ملک مار است ملک خدا داد مارا خدا راست ملک

[1]

شہادت

ترمیم

شیخ فیروز 860 ہجری میں بہرائچ (قدیم نام بھڑائچ) گئے تھے جہاں جنگ میں شہادت پائی اور وہیں دفن ہوئے،جنگ میں جاتے وقت آپ کی اہلیہ محترمہ نے کہا کہ امید سے ہوں آپ نے جواب دیا انشاء اللہ بیٹا پیدا ہوگا اور اس سے بکثرت اولاد ہوگی،پیٹ کے فرزند اور تم دونوں کو اللہ کے سپرد کیا جنگ میں نہ معلوم کیا صورت پیش آئے۔ غرض کہ اللہ نے ان کو بیٹا دیا جن کا نام سعد اللہ تھا اور سعد اللہ میرے حقیقی دادا تھے۔[1] موجودہ وقت میں آپ کی مزار بہرائچ کی مرکزی عیدگاہ سے لگی ہوئی ایک اونچے ٹیلے پر ہیں۔ جہاں پر ایک مسجد اور شہر کا مرکزی قبرستان بھی ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث اخبار الاخیار

* [1]