پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے ایک پارٹی کے سابق سینیئر نائب چیئرمین، بابائے سوشلزم۔ لاہور کے قریبی ضلع شیخوپورہ کے ایک متوسط طبقے کے کسان گھرانے میں 1917ء کو جنم لیا اور انیس سو سینتالیس میں تقسیم برصغیر سے قبل ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔

آزادی کے وقت وہ لاہور میں سٹی مسلم لیگ کے سیکریٹری اور پیشہ ور وکیل تھے۔ سوشلسٹ رجحانات اور نظریات کی طرف مائل ہونے کے باعث انھوں نے چند برس بعد ہی آزاد پاکستان پارٹی کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد ترقی پسند خیالات کا فروغ تھا۔ شیخ رشید اس جماعت کے پہلے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے لیکن انیس سو سڑسٹھ میں انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر پاکستان پیپلز پارٹی تشکیل دی۔

وہ پارٹی کی مرکزی اگزیکوٹیو کمیٹی کے بانی تھے اور بعد میں پیپلز پارٹی کی سب سے پہلی کابینہ کے رکن بنے۔ وہ ابتدا میں وزیر صحت کے عہدے پر فائز ہوئے اور بعد میں زمین کی ملکیت سے متعلق اصلاحات کے کمیشن کے چیئرمین مقرر ہوئے۔ زمین کی ملکیت کی حد مقرر کرنے اور بڑی کمپنیوں کے ناموں سے تیار ہونے والی دواؤں کی قیمت پر کنٹرول کرنے کی کوششوں کے باعث بالترتیب پارٹی میں شامل زمیندار سیاست دان اور بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں شیخ رشید کو ناپسند کرنے لگیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین کی ملکیت سے متعلق اصلاحات پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہوا اور سستی دواؤں کی تیاری اور فراہمی کا منصوبہ بالائے طاق رکھ دیا گیا۔

تاہم شیخ رشید ذو الفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی رہے۔ بھٹو انھیں کابینہ کے سب سے سینیئر رکن کا مقام دیتے کیونکہ غالباً وہ پارٹی میں موجود ترقی پسند اور قدامت پسند عناصر میں توازن برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ انیس سو اناسی میں ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے بعد آنے والے پیچیدہ اور اہم برسوں میں شیخ رشید مسلسل پارٹی کے سینیئر نائب چیرمین رہے۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیا الحق ملک کے فوجی حکمران تھے اور شیخ رشید پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لیے مشعل راہ۔

لیکن انیس سو اسی کے عشرے کے آخری حصے میں جب پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی تو اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور شیخ رشید کے درمیان اختلافات کے باعث فاصلہ بڑھنے لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بے نظیر کے خیال میں شیخ رشید کے سوشلسٹ نظریات اس وقت کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ ان اختلافات کے باوجود شیخ رشید پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلص رہے اور دیگر اراکین کی طرح انھوں نے پارٹی تبدیل نہ کی۔

انھوں نے پانچ برس کی طویل علالت کے دوران خود نوشت سوانح عمری مرتب کی۔ جو بعد میں شائع ہوئی۔ لاہور میں ان کا انتقال 12 ستمبر 2002ء کو ہوا۔