یہ فلم سن 40 عشرے میں پنچولی پیکچر کے بینر تلے بنائی گئی۔ فلم شیریں ف رہاد کا منصوبہ بڑی آرزؤں اور امنگوں کے ساتھ تیار کیا گیا تھا اور پنچولی نے اپنی ساری ٹیم پر واضح کر دیا تھا کہ اس پروڈکشن کے سلسلے میں انھیں اخراجات کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہ ہندوستانی سنیما کی سب سے بڑی فلم بنانا چاہتے ہیں۔

جینت اور راگنی

شیریں ف رہاد کے قصے کو ایک نئے ڈھنگ سے لکھنے کے لیے لاہور کے معروف ترین مصنف امتیاز علی تاج کی خدمات حاصل کی گئیں جنھوں نے کہانی کو جدید رنگ دینے اور مناظر میں شان و شکوہ پیدا کرنے کے لیے ف رہاد کو ایک ایسے انجنیئر کا روپ دے دیا جس کی نگرانی میں ہزاروں مزدور ایک نہر کی کھدائی میں مصروف ہیں۔(اس مقصد کے لیے بیدیاں نہر کی کھدائی کے اصل شاٹس استعمال کیے گئے)

جینت اور راگنی نے مرکزی کردار ادا کیے۔

لیکن بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ نہر کے بہتے پانی کو دودھ میں کس طرح تبدیل کیا جائے۔ بہت سوچ بچار کے بعد پنچولی نے فلم کی ہدایتکاری کا فریضہ اس زمانے کے ایک مشہور کیمرا مین پی۔ دت کو سونپ دیا جو ٹرِک فوٹوگرافی کے ماہر تھے۔ پنچولی نے انھیں کھلی چھُوٹ دی کہ وہ ’سپیشل ایفکٹس‘ پر جتنا پیسہ چاہیں خرچ کر سکتے ہیں اور دت صاحب نے بھی پنچولی کی اس دریا دلی کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔

خسرو پرویز کے شاندار محل کا جو نقشہ پنچولی کے ذہن میں تھا اسے عملی شکل دینا کسی عام آرٹ ڈائریکٹر کے بس کی بات نہ تھی چنانچہ بڑی ردّوکد کے بعد این ایم خواجہ کو اس کام پر مامور کیا گیا جنھوں نے اُس وقت تک کی ہندوستانی فلمی تاریخ کے سب سے بڑے سیٹ تیار کرائے اور ان کی تزئین و آرائش پر اپنا سارا ہنر صرف کر دیا۔

فلم کی موسیقی کے لیے اُس زمانے کے سب سے کامیاب موسیقارماسٹر غلام حیدر پر پنچولی کی نگاہ تھی لیکن انھیں بمبئی سے بلاوے پر بلاوے آ رہے تھے چنانچہ پروڈ کشن والوں کی کسی معمولی سی بات پہ ناراض ہو کر غلام حیدر عازمِ بمبئی ہو گئے اور شیریں ف رہاد کی موسیقی مرتب کرنے کا بھاری فریضہ ایک غیر معروف مگر ہونہار نوجوان کے کاندھوں پر آن پڑا۔ اس نوجوان کا نام تھا رشید عطرے ۔

ابھی فلم زیرتکمیل ہی تھی کہ سارے ہندوستان میں اس کی دھوم مچ گئی اور تقسیم کاروں نے بڑی بڑی رقوم کا ایڈوانس پیش کرنا شروع کر دیا۔ یہ فلم اٹھارہ لاکھ میں فروخت ہوئی جو اُس زمانے کے لحاظ سے ایک محیرالعقول رقم تھی۔ جس طمطراق سے یہ فلم نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی اتنی ہی شدید لعن طعن سے ناظرین نے اسے مسترد کر دیا۔

شاید لوگ ف رہاد کو زمانۂ جدید کے ایک انجینئر کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اُن کے ذہن میں خستہ تن، تیشہ بدست ف رہاد کا وہی کلاسیکی تصوّر تھا۔ یوں یہ فلم ناکام رہی۔

شیریں ف رہاد کے فلاپ ہوتے ہی لالی وڈ کے محل پر دس برس سے لہراتا پنچولی کا پھریرا سرنگوں ہو گیا ۔