صارف:Aliya Furrukh /Attention deficit hyperactivity disorder


توجہ کی کمی، بیش فعالی کا عارضہ (ADHD)
دیگر نامتوجہ کی کمی کا عارضہ، ہائپرکینیٹک عارضہ (ICD -10)
An image of children
ADHD والے لوگوں کے لئے کاموں پر توجہ مرکوز کرنا اور انہیں مکمل کرنا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہوتا ہے- مثلا اسکول کا کام-
تخصصنفسیاتی امراض ,بچوں کے امراض
علاماتتوجہ دینے میں دشواری، ضرورت سے زیادہ سرگرمی، رویے کو کنٹرول کرنے میں دشواری[1][2]
عمومی ہدف6–12 سال کی عمر سے پہلے[3]
دورانیہ>6 ماہ[3]
سببجنیاتی ڈس آرڈر اورماحولیاتئ عوامل[4][5]
تشخیصی طریقہدیگر ممکنہ وجوہات کے نہ ہونےکے بعد علامات کی بنیاد پر[1]
تفریقی تشخیصعام طور پر فعال نوجوان بچہ برتائو کی خرابی, اختلاف، سرکشی کی خرابی, سیکھنے میں دشواری, بائی پولرڈس آرڈر , جنین کی الکحل سپیکٹرم کی خرابی[6][7]
معالجی تدابیرمشاورت,طرز زندگی میں تبدیلیاں, ادویات [1]
علاجمحرکات, atomoxetine, guanfacine, clonidine [8][9]
تعدد51.1ملین (2015) [10]

توجہ کا کمی ، بیش فعالیت کا عارضہ ( ADHD )

اے ڈی ایچ ڈی نیورو ڈیولپ منٹل قسم کا ایک ذہنی عارضہ ہے۔ [11] [12] اس کی خصوصیت توجہ دینے میں دشواری ، ضرورت سے زیادہ سرگرمی ، اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر کام کرنا شامل ہے جو کہ کسی شخص کی عمر کے حساب سے مناسب نہ ہو۔ [1] [2] ADHD والے کچھ افراد میں جذبات کو کنٹرول کرنے میں دشواری یا ایگزیکٹو فنکشن کے ساتھ مسائل بھی ہوتے ہیں۔ [13] [14] [15] [2] تشخیص کے لیے، علامات، کسی شخص میں بارہ سال کی عمر سے پہلے ظاہر ہونی چاہئیں، چھ ماہ سے زیادہ موجود رہیں، اور کم از کم دو ترتیبات (جیسے اسکول، گھر، یا تفریحی سرگرمیاں) میں مسائل پیدا کریں۔ [3] [16] بچوں میں، توجہ کی کمی کے نتیجے میں اسکول کی کارکردگی خراب ہو سکتی ہے۔ [1] اس کے علاوہ اس کا دیگر دماغی امراض اور منشیات کےغلط استعمال کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ [17] خاص طور پر جدید معاشرے میں یہ خرابی کا سبب بنتا ہے، ADHD والے بہت سے افراد ان کاموں پر بھرپور توجہ رکھ سکتے ہیں جو انہیں دلچسپ یا مفید لگتے ہیں (جسے ہائپر فوکس کہا جاتا ہے)۔ [5] [18]

بچوں اور نوعمروں میں سب سے زیادہ زیرتحقیق اور تشخیص شدہ ذہنی خرابی ہونے کے باوجود، زیادہ تر معاملات میں اس کی صحیح وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ [4] جینیاتی عوامل کا امکان تقریباً 75 فیصد ہے۔ [19] حمل کے دوران نکوٹین کااطراف میں استعمال، ماحولیاتی خطرہ ہو سکتا ہے۔ [20] اندازپرورش یا نظم و ضبط سے اس کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ [21] DSM-IV معیار کی تشخیص کے مطابق یہ تقریباً 5–7% بچوں کو متاثر کرتا ہے [2] [22] اور 1–2% جب ICD-10 کے معیار کے ذریعے تشخیص کی جاتی ہے۔ [23] 2015 تک، اس سے عالمی سطح پر تقریباً 51.1 ملین افراد کے متاثر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ [10] شرحیں تمام ممالک کے درمیان یکساں ہیں اوراس کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے۔ [24] ADHD کی تشخیص لڑکوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہوتی ہے، [2] جبکہ لڑکیوں میں اس عارضے کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی علامات لڑکوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ [25] [26] [27] بچپن میں تشخیص ہونے والے تقریباً 30-50% لوگوں میں جوانی میں بھی یہ علامات پائی جاتی ہیں اور 2-5% بالغوں میں یہ حالت موجود ہوتی ہے۔ [28] [29] [30] بالغوں میں ہائپر ایکٹیویٹی کے بجائے اندرونی بے چینی ہو سکتی ہے۔ [31] وہ اکثر اس سے نبٹنے کی صلاحیتیں تلاشتے ہیں جو ان کی کچھ یا تمام خرابیوں کوبہترکرسکتی ہیں۔ [32] اس عارضہ کی حالت کو دیگر حالتوں سے علیحدہ طور پر شناخت کرنا اور اس کےساتھ اعلیٰ سطح کی سرگرمیوں میں فرق کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے جو، اب بھی معمول کے رویوں کی حدود میں ہوں۔ [16]

ADHD مینجمنٹ کی سفارشات ملکوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں اور عام طور پر ان میں مشاورت ، طرز زندگی میں تبدیلیوں اور ادویات کا امتزاج شامل ہوتا ہے۔ [1] برطانوی گائیڈ لائن صرف ان بچوں میں پہلی ترجیح کے طور پر علاج کےلئے دوائیوں کی سفارش کرتی ہے جن میں شدید علامات ہوتی ہیں اور اعتدال پسند علامات والے ان افراد میں دوائیوں پر غور کیا جاتا ہے جو یا تو قطعی طور پر مشاورت سے سے انکار کرتے ہیں یا اس کے ذریعے بہتر ہونے میں ناکام رہتے ہیں، جبکہ بالغوں کے علاج کے لیے دوائیں پہلی ترجیح ہیں۔ [33] کینیڈین اور امریکی رہنما خطوط پری اسکول کی عمر کے بچوں میں طرز عمل کے مینجمنٹ کوپہلی ترجیح کے طورپر تجویز کرتے ہیں جب کہ اس کے بعد دوائیں اور رویے کی تھراپی ایک ساتھ تجویز کی جاتی ہے۔ [34] [35] [36] محرک کے ساتھ علاج کم از کم 14 ماہ کے لیے موثر ہوتاہے۔  تاہم، ان کی طویل مدتی تاثیر واضح نہیں ہے اور ممکنہ طور پر اس کے سنگین ضمنی اثرات ہیں۔ [37] [38] [39] [40] [41] [42] [43]

طبی ادب نے 18 ویں صدی سے ہی ADHD جیسی علامات بیان کی ہیں۔ [44] ADHD، اس کی تشخیص، اور اس کے علاج کو 1970 کی دہائی سے متنازعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ [45] تنازعات میں معالجین، اساتذہ، پالیسی ساز، والدین اور میڈیا شامل ہیں۔ مضوعات میں ADHD کی وجوہات اور اس کے علاج میں محرک ادویات کا استعمال شامل ہے۔ [46] زیادہ تر صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے ADHD کو بچوں اور بڑوں میں ایک حقیقی عارضے کے طور پر قبول کرتے ہیں، اور سائنسی برادری میں بحث بنیادی طور پر اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ اس کی تشخیص اور علاج کیسے کیا جاتا ہے۔ [47] [48] [49] اس حالت کو سرکاری طور پر 1980 سے 1987 تک توجہ کےکمی کی خرابی ( ADD ) کے نام سے جانا جاتا تھا، جبکہ اس سے پہلے اسے بچپن کا ہائپرکائنٹک ردعمل کہا جاتا تھا۔ [50] [51]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث "Attention Deficit Hyperactivity Disorder"۔ National Institute of Mental Health۔ مارچ 2016۔ 2016-07-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-03-05
  2. ^ ا ب پ ت ٹ American Psychiatric Association (2013)۔ Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders (5th ایڈیشن)۔ Arlington: American Psychiatric Publishing۔ ص 59–65۔ ISBN:978-0-89042-555-8
  3. ^ ا ب پ "Symptoms and Diagnosis"۔ Attention-Deficit / Hyperactivity Disorder (ADHD)۔ Division of Human Development, National Center on Birth Defects and Developmental Disabilities, Centers for Disease Control and Prevention۔ 29 ستمبر 2014۔ 2014-11-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-11-03
  4. ^ ا ب NIMH (2013)۔ "Attention Deficit Hyperactivity Disorder (Easy-to-Read)"۔ National Institute of Mental Health۔ 2016-04-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-17
  5. ^ ا ب JJ Kooij، D Bijlenga، L Salerno، R Jaeschke، I Bitter، J Balázs، دیگر (فروری 2019)۔ "Updated European Consensus Statement on diagnosis and treatment of adult ADHD"۔ European Psychiatry۔ ج 56: 14–34۔ DOI:10.1016/j.eurpsy.2018.11.001۔ PMID:30453134
  6. Fred F. Ferri (2010)۔ Ferri's differential diagnosis : a practical guide to the differential diagnosis of symptoms, signs, and clinical disorders (2nd ایڈیشن)۔ Philadelphia, PA: Elsevier/Mosby۔ ص Chapter A۔ ISBN:978-0323076999
  7. Jennifer Zubler, MD, FAAP؛ Carol Weitzman, MD, FAAP؛ Mark Sloane, DO؛ Natasha Singh, MPA؛ Yasmin N. Senturias, MD, FAAP؛ Barry Kosofsky, MD, PhD؛ Julie Kable, PhD؛ Daniel Fernandez-Baca, MA؛ Elizabeth Dang, MPH؛ Ira Chasnoff, MD, FAAP؛ Jacquelyn Bertrand PhD؛ Tatiana Balachova PhD؛ Joseph F. Hagan Jr. MD, FAAP (2016)۔ "Neurobehavioral Disorder Associated With Prenatal Alcohol Exposure" (PDF)۔ Pediatrics۔ American Journal of Pediatrics۔ ج 138 شمارہ 4: e20151553۔ DOI:10.1542/peds.2015-1553۔ PMC:5477054۔ PMID:27677572۔ 2020-03-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-05-22{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
  8. DR Coghill، T Banaschewski، C Soutullo، MG Cottingham، A Zuddas (نومبر 2017)۔ "Systematic review of quality of life and functional outcomes in randomized placebo-controlled studies of medications for attention-deficit/hyperactivity disorder"۔ European Child & Adolescent Psychiatry۔ ج 26 شمارہ 11: 1283–1307۔ DOI:10.1007/s00787-017-0986-y۔ PMC:5656703۔ PMID:28429134
  9. R Jain، A Katic (اگست 2016)۔ "Current and Investigational Medication Delivery Systems for Treating Attention-Deficit/Hyperactivity Disorder"۔ The Primary Care Companion for CNS Disorders۔ ج 18 شمارہ 4۔ DOI:10.4088/PCC.16r01979۔ PMID:27828696۔ S2CID:3807877
  10. ^ ا ب GBD 2015 Disease and Injury Incidence and Prevalence Collaborators (اکتوبر 2016)۔ "Global, regional, and national incidence, prevalence, and years lived with disability for 310 diseases and injuries, 1990–2015: a systematic analysis for the Global Burden of Disease Study 2015"۔ Lancet۔ ج 388 شمارہ 10053: 1545–1602۔ DOI:10.1016/S0140-6736(16)31678-6۔ PMC:5055577۔ PMID:27733282 {{حوالہ رسالہ}}: |author= باسم عام (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: عددی نام: مصنفین کی فہرست (link)
  11. Sroubek A, Kelly M, Li X (February 2013).
  12. SC Caroline، مدیر (2010)۔ Encyclopedia of Cross-Cultural School Psychology۔ Springer Science & Business Media۔ ص 133۔ ISBN:9780387717982۔ 2021-08-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-08-08
  13. Faraone SV, Rostain AL, Blader J, Busch B, Childress AC, Connor DF, Newcorn JH (February 2019).
  14. Tenenbaum RB, Musser ED, Morris S, Ward AR, Raiker JS, Coles EK, Pelham WE (April 2019).
  15. Lenzi F, Cortese S, Harris J, Masi G (January 2018).
  16. ^ ا ب Mina K. Dulcan؛ MaryBeth Lake (2011)۔ "Axis I Disorders Usually First Diagnosed in Infancy, Childhood or Adolescence: Attention-Deficit and Disruptive Behavior Disorders"۔ Concise Guide to Child and Adolescent Psychiatry (4th illustrated ایڈیشن)۔ American Psychiatric Publishing۔ ص 34۔ ISBN:978-1-58562-416-4 – بذریعہ Google Books
  17. Erskine HE, Norman RE, Ferrari AJ, Chan GC, Copeland WE, Whiteford HA, Scott JG (October 2016).
  18. Walitza S, Drechsler R, Ball J (August 2012).
  19. Demontis, Ditte (2019)
  20. Tiesler, Carla M. T.; Heinrich, Joachim (21 September 2014)
  21. "Does Bad Parenting Cause ADHD?"۔ WebMD۔ 2020-07-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-31
  22.        Willcutt EG (July 2012)
  23. Philip Cowen؛ Paul Harrison؛ Tom Burns (2012)۔ "Drugs and other physical treatments"۔ Shorter Oxford Textbook of Psychiatry (6th ایڈیشن)۔ Oxford University Press۔ ص 546۔ ISBN:978-0-19-960561-3 – بذریعہ Google Books
  24. SV Faraone (2011)۔ "Ch. 25: Epidemiology of Attention Deficit Hyperactivity Disorder"۔ در MT Tsuang، M Tohen، P Jones (مدیران)۔ Textbook of Psychiatric Epidemiology (3rd ایڈیشن)۔ John Wiley & Sons۔ ص 450۔ ISBN:9780470977408۔ 2020-12-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-31
  25.    Crawford, Nicole (February 2003)
  26.  Emond V, Joyal C, Poissant H (April 2009)
  27.  Singh I (December 2008)
  28.  Kooij SJ, Bejerot S, Blackwell A, Caci H, Casas-Brugué M, Carpentier PJ, Edvinsson D, Fayyad J, Foeken K, Fitzgerald M, Gaillac V, Ginsberg Y, Henry C, Krause J, Lensing MB, Manor I, Niederhofer H, Nunes-Filipe C, Ohlmeier MD, Oswald P, Pallanti S, Pehlivanidis A, Ramos-Quiroga JA, Rastam M, Ryffel-Rawak D, Stes S, Asherson P (September 2010).
  29.  Bálint S, Czobor P, Mészáros A, Simon V, Bitter I (2008)
  30. Ginsberg Y, Quintero J, Anand E, Casillas M, Upadhyaya HP (2014)
  31. National Collaborating Centre for Mental Health (UK) (2009)۔ Attention deficit hyperactivity disorder : diagnosis and management of ADHD in children, young people, and adults۔ National Collaborating Centre for Mental Health (Great Britain), National Institute for Health and Clinical Excellence (Great Britain), British Psychological Society., Royal College of Psychiatrists.۔ Leicester: British Psychological Society۔ ص 17۔ ISBN:9781854334718۔ OCLC:244314955۔ PMID:22420012
  32. .Gentile JP, Atiq R, Gillig PM (August 2006)
  33. National Collaborating Centre for Mental Health (2009)۔ "Pharmacological Treatment"۔ Attention Deficit Hyperactivity Disorder: Diagnosis and Management of ADHD in Children, Young People and Adults۔ NICE Clinical Guidelines۔ Leicester: British Psychological Society۔ ج 72۔ ص 303–307۔ ISBN:978-1-85433-471-8۔ 2016-01-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا – بذریعہ NCBI Bookshelf
  34. "Canadian ADHD Practice Guidelines" (PDF)۔ Canadian ADHD Alliance۔ 2021-01-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-02-04
  35. "Attention-Deficit / Hyperactivity Disorder (ADHD): Recommendations"۔ Centers for Disease Control and Prevention۔ 24 جون 2015۔ 2015-07-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-07-13
  36.  Wolraich, ML; Hagan JF, Jr; Allan, C; Chan, E; Davison, D; Earls, M; Evans, SW; Flinn, SK; Froehlich, T; Frost, J; Holbrook, JR; Lehmann, CU; Lessin, HR; Okechukwu, K; Pierce, KL; Winner, JD; Zurhellen, W; SUBCOMMITTEE ON CHILDREN AND . ADOLESCENTS WITH ATTENTION-DEFICIT/HYPERACTIVE, DISORDER
  37.  Storebø OJ, Pedersen N, Ramstad E, Kielsholm ML, Nielsen SS, Krogh HB, Moreira-Maia CR, Magnusson FL, Holmskov M, Gerner T, Skoog M, Rosendal S, Groth C, Gillies D, Buch Rasmussen K, Gauci D, Zwi M, Kirubakaran R, Håkonsen SJ, Aagaard L, Simonsen E, Gluud C (May 2018).
  38. "NIMH » The Multimodal Treatment of Attention Deficit Hyperactivity Disorder Study (MTA):Questions and Answers"۔ NIMH » Home۔ 2021-01-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-01۔ Why were the MTA medication treatments more effective than community treatments that also usually included medication? Answer: There were substantial differences in quality and intensity between the study-provided medication treatments and those provided in the community care group.
  39. National Collaborating Centre for Mental Health (2009)۔ Attention Deficit Hyperactivity Disorder: Diagnosis and Management of ADHD in Children, Young People and Adults۔ NICE Clinical Guidelines۔ Leicester: British Psychological Society۔ ج 72۔ ISBN:978-1-85433-471-8۔ 2016-01-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا – بذریعہ NCBI Bookshelf
  40. Huang YS, Tsai MH (July 2011)
  41. Arnold LE, Hodgkins P, Caci H, Kahle J, Young S (February 2015)
  42.  Parker J, Wales G, Chalhoub N, Harpin V (September 2013)
  43. .Wigal SB (2009)
  44. Lange KW, Reichl S, Lange KM, Tucha L, Tucha O (December 2010)
  45. VN Parrillo (2008)۔ Encyclopedia of Social Problems۔ SAGE۔ ص 63۔ ISBN:9781412941655۔ 2020-01-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-05-02
  46. .Mayes R, Bagwell C, Erkulwater J (2008)
  47. .Sim MG, Hulse G, Khong E (August 2004)
  48. LB Silver (2004)۔ Attention-deficit/hyperactivity disorder (3rd ایڈیشن)۔ American Psychiatric Publishing۔ ص 4–7۔ ISBN:978-1-58562-131-6
  49. .Schonwald A, Lechner E (April 2006)
  50. Lawrence G. Weiss (2005)۔ WISC-IV clinical use and interpretation scientist-practitioner perspectives (1st ایڈیشن)۔ Amsterdam: Elsevier Academic Press۔ ص 237۔ ISBN:978-0-12-564931-5۔ 2021-01-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-31
  51. "ADHD: The Diagnostic Criteria"