معاہدہ ِعمر    (جو   میثاقِ عمر,  پیمانِ عمر یا قوانینِ عمر   ; عربی: شروط عمر یا عهد عمر یا عقد عمر  کے طور پر بھی جانا جاتا ہے   ) مسلمانوں اور شام, میسوپوٹامیا[1] یا یروشلم[2] کے عیسائیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے جس نے  بعد میں اسلامی فقہ  میں مذہبی حیثیت حاصل کی ۔  ساخت اور شِقوں کے   حوالے سے   معاہدے  کے کئی ترجمے  اور  تشاریح   ہیں .[3] جبکہ معاہدہ روایتی طور پر الراشد خلیفہ عمر ابن خطاب,[4] سے منسوب ہے، جبکہ کچھ فقہا اور مستشرقین  نے اس انتساب  پر  شک بھی  کیا ہے  [3] اور اسے  ٩ صدی  کے   مجتہدین  یا اموی خلیفہ عمر الثانی کیساتھ منسوب کیا ہے . اس معاہدے  کو   ایلیا  کے لوگوں کیجانب  حفاظت کی ضمانتِ عمر    (یعنی اردو  :  عہدعمر   , عربی: العهدة العمرية)  کے ساتھ خلط نہیں کرنا چاہیے .

یہ معاہدہ عام طور پر غیر مسلموں - ذمیوں  کے حقوق اور پابندیوں پر مشتمل ہے    پابند  کرنے سے   غیر مسلموں کے   افراد، خاندان، مال اور املاک کے   امان   کی ذمہ داری لی جاتی ہے۔ دیگر حقوق اور شرائط و تصریحات  بھی لاگو ہو سکتی ہیں۔ ابن تیمیہ  کے مطابق جنہوں نے خود بھی اس معاہدہ کو فقہی اعتبار سے صحیح گردانا ہے، ذمیکو   معاہدہ ِعمر سے   خود   کو آزاد کرنے کا  حق حاصل ہے اور مسلمانوں کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے "اگر وہ مسلمان ریاستی فوج میں بھرتی ہو اور دوسرے مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ میں لڑے ."[5]

بنیاد اور استناد

ترمیم

 ابو منشر کے مطابق، اس دستاویز کی تاریخی  بنیاد   مسلمان فاتحین اور    الجزیرہ  یا دمشق  کے عیسائیوں کے درمیان ہوئے ایک معاہدے پر ہو سکتی ہے جس بعد میں   ذمیوں  کیلئے دوسری جگہوں پر بھی توسیع دی گئی ہو .[1] وہ مزید لکھتے ہیں کہ، نام نہاد 'معاہدہ عمر' میں مقرر کردہ   شرائط   خلافت  کے نظریہ  سوچ اور  طرز فکر کیلئے نامناسب ہیں، اس دستاویز کی  (متنی) خامیاں اس تنازع کی تائید کرتی ہیں کہ اس دستاویز کا موجد عمر نہیں تھا ."[6]  بعض مغربی مورخین کی رائے ہے کہ یہ دستاویز   ضمانت  حضرت عمر  پر  مبنی تھا، جو  عمر ابن خطاب اور یروشلم کے  پیر مہتمم (مئیر)   سوفرونیئس  کے درمیان ایک معاہدہ تھا اور      فتح القدس کے   بعد   خلافت راشدہ  کی جانب سے ۶۳۷ء طے ہوا ,[2] جبکہ دوسروں کا اعتقاد ہے کہ یہ دستاویز یا تو   ۹ء صدی   مجتہدین یا   اموی  خلیفہ دوم حضرت عمر کے دور کی تصنیف تھی , جس میں بعد میں دیگر دفعات شامل کی گئیں . دوسرے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ دستاویز ہو سکتا ہے شروع میں فوری طور پر بعد از فتح ماحول میں لکھا گیا ہو اور بعد کی  مورخین نے اسے اسلوب دیا ہو .[1]

  1. ^ ا ب پ Roggema 2009.
  2. ^ ا ب Meri 2005.
  3. ^ ا ب Abu-Munshar 2007.
  4. Thomas & Roggema 2009.
  5. Michael Ipgrave (2009)۔ Justice and Rights: Christian and Muslim Perspectives۔ Georgetown University Press۔ صفحہ: 58۔ ISBN 1589017226 
  6. Maher Abu-Munshar, Islamic Jerusalem And Its Christians: A History of Tolerance And Tensions, pp. 79-80.

حوالہ جات

ترمیم

[[زمرہ:اسلام اور مسیحیت]] [[زمرہ:اسلام اور دیگر مذاہب]] [[زمرہ:فقہ]]