صبرا و شاتيلا قتل عام
لبنان کے علاقہ صبرا اور شاتیلا میں واقع فلسطینیوں کے پناہ گزیں اڈے پر الکتائب نامی مسیحی ملیشیا، جسے اسرائیل کی سرپرستی حاصل تھی، نے 16 اور 18 ستمبر 1982ء میں نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ مسلح گروہ بنام الکتائب جو لبنان کی فلنججی جماعت کا رکن ایلی حبیقہ نے بنائی تھی۔ اس کو صبرا اور شاتیلا کے پناہ گزیں اڈوں میں پہنچانے کے لیے راستہ اسرائیلی فوجیوں نے فراہم کیا اور اس گروہ کے اراکین نے تین دن تک پناہ گزینوں کے اڈوں میں قتلِ عام کیا۔ اس بارے میں یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ اسرائیلی فوجی اس قتلِ عام کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے کیونکہ اس قتلِ عام سے محض دو دن پہلے بشر الجمیل کا قتل ہوا تھا جو مسیحی مسلح لیڈر اور منتخب صدر تھے اور اس وجہ سے لبنان کی فلنجی جماعتوں اور مسلمانوں میں ایک طویل نفرت و دشمنی کا آغاز ہوا۔ اس قتلِ عام میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب تک متنازع ہے، تاہم ایک اندازے کے مطابق 328 سے 3،500 تک مسلمان اس قتلِ عام کی نذر ہو گئے۔
صبرا اور شاتیلا کا قتلِ عالم | |
---|---|
فائل:Massacre of palestinians in shatila.jpg صبرا اور شاتیلا کے پناہ گزیں اڈوں پر قتلِ عام کے بعد کے مناظر[1] | |
مقام | مغربی بیروت، لبنان |
تاریخ | 16 ستمبر، 1982ء |
نشانہ | صبرا اور شاتیلا پناہ گزیں کیمپ |
حملے کی قسم | قتل عام |
ہلاکتیں | 328 تا 3،500 |
مرتکبین | الکتائب پارٹی ایلی حبیقہ کے زیرِ انتظام مسلح گروہ |
تحقیقات و نتائج
ترمیماس قتلِ عام پر اسرائیل میں اور بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید ہوئی کیونکہ صبرا اور شاتیلہ دونوں پناہ گزینوں کے اڈے اسرائیل کے زیرِ انتظام تھے۔ کچھ تجریہ نگاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل اس کارروائی میں بلا واسطہ طور پر ملوث ہے۔ شدید تنقید کے نتیجے میں اسرائیل نے ایک ‘‘کہان کمیٹی‘‘کے نام سے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق اسرائیل اس قتلِ عام میں بالواسطہ ملوث پایا گیا۔ کمیٹی نے جاری کردہ رپورٹ میں کہا کہ اسرائیلی جرنیلوں اور اربابِ اختیار کو انتقام کی ان کارروائیوں کا اندازہ تھا اور انھیں فلنجی گروہ کو پناہ گزینوں کے اڈے میں داخل نہیں ہونے دینا چاہیے تھا۔ ایرئیل شیرون کو ذاتی طور پر اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھرایا گیا، جس نے متوقع “خون خرابے اور انتقام کے خطرے کو جانتے بوجھتے نظر انداز کیا اور خون خرابے کو روکنے کے لیے کوئی مناسب قدم نہ اُٹھایا“۔[2] تحقیقاتی کمیٹی نے سفارش کی کہ ایرئیل شیرون کو وزیرِ دفاع کے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہیے اور معمولی مزاحمت کے بعد ایرئیل شیرون مستعفی ہو گیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "ورلڈ پریس فوٹو - 1982ء"۔ 16 فروری 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2009
- ↑ زیو Schiff، ایہود یارائی; زیو شائف اور ایہود یارائی (1984ء)۔ اسرائیل کی لبنان سے جنگ۔ نیو یارک: سائمن اور شوشتر۔ صفحہ: 283–4۔ ISBN 0-671-47991-1 Cite uses deprecated parameter
|coauthors=
(معاونت);
بیرونی روابط
ترمیم- رابرٹ فسک، 2001آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ counterpunch.org (Error: unknown archive URL)