صفدر ہمدانی
صفدر ہمدانی پاکستان کے معروف شاعر،ادیب،صحافی،مرثیہ نگار،محقق اور براڈکاسٹر ہیں۔
صفدر ہمدانی | |
---|---|
پیدائش | 17 نومبر 1950 لاہور، پاکستان |
قلمی نام | صفدر ہمدانی |
پیشہ | براڈکاسٹر، صحافی، شاعر |
زبان | اردو، فارسی، |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایم اے جرنلزم |
مادر علمی | جامعہ پنجاب |
موضوع | صحافت |
حالاتِ زندگی
ترمیمصفدر ہمدانی لاہور کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں 17 نومبر 1950 میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مصطفی علی ہمدانی ممتاز براڈ کاسٹر تھے۔ صفدر ہمدانی نے ابتدائی تعلیم لاہور میں ہی حاصل کی اور گریجویشن بھی ایف سی کالج، لاہور سے کی۔ اس کے بعد جامعہ پنجاب سے صحافت میں ایم۔ اے کیا۔ 1973 میں ریڈیو پاکستان سے بطور پروڈیوسر وابستہ ہوئے۔ دورانِ ملازمت ریڈیو اکیڈمی میں بھی خدمات انجام دیں اوربیرون ملک ریڈیو پالینڈ اور چار سال تک ریڈیو جاپان میں بھی خدمات انجام دیں۔[1] نیز جب 1992 میں برطانیہ میں رہائش اختیار کی تو تقریباً انیس برس تک بی بی سی اردو سے وابستہ رہے ہیں۔ صفدر ہمدانی پچھلے دو عشروں سے لندن میں سکونت پزیر ہیں اور وہیں پہلے چار سال تک القمر آن لائن اور پھر 2008 میں عالمی اخبار کے نام سے ای-اخبار کا اجرا کیا ہے۔[حوالہ درکار]
شعر و سخن
ترمیمصفدر ہمدانی نے براڈ کاسٹنگ کے ساتھ ساتھ قلمی سفر کو بھی جاری رکھا اور انھوں نے غزل، نظم ،نعت، منقبت و مرثیہ کی صنف میں بھی مسلسل لکھا۔ خصوصا مرثیہ گوئی کے باعث انھیں شاعرِ آلِ عبا کا خطاب ملا ہے۔ مرثیہ نو تصنیف پڑھنے کے سلسلے میں وہ اب تک یورپ، امریکا اور مشرقِ وسطی کے بہت سے ممالک میں وہ جا چکے ہیں ۔[1]
نمونہِ کلام[حوالہ درکار]
ترمیمآزاد نظم
سوچ کرذرا دیکھو | ||
رازِ کُن یہی تو ہے | ||
ایک سانس کا رشتہ | ||
موت زندگی ہی ہے |
٭٭٭
مرثیہ کا بند
ایک اور نیا مرثیہ ہونے لگا مرقوم | یہ وصف مرا آلِ محمد کا ہے معلوم | |
موضوع بھی ہے معصوم تو احساس بھی معصوم | اب لیں گے جنم نوکِ قلم سے کئی مفہوم | |
کتنا دشوار ہے ، یہ بولہبی سے پوچھو | ||
اب میرا قلم شہپرِ جبریل بنے گا |
مصرعے کا ہر اک لفظ ضیا بار ہے دیکھو | قرآن کی آیات کا اظہار ہے دیکھو | |
کہتے ہیں ملائک اسے شہکار ہے دیکھو | ہر نکتہ جوں خورشید نمودار ہے دیکھو | |
اشعار نہیں حق کا حوالہ انہیں کہیئے | ||
تاریک ہیں گر دل تو اُجالا انہیں کہیئے |
٭٭٭
غزل کے اشعار
ہم اپنی اپنی ذات میں محصور ہو گئے | چہرے بے رنگ ہو گئے بے نور ہو گئے | |
اس شہرِ دل میں آ کے جو ٹھہرا تھا جا چکا | اور ہم بھی اُس کی یاد سے معذور ہو گئے |
تصنیف و تالیف
ترمیم- " کفن پہ تحریریں " ( غزلوں کا پہلا مجموعہ ) لاہور، 1974ا
- " فرات کے آنسو " ( مرثیوں کا مجموعہ )2003
- " نورِ کربلا " (عزائی شاعری پہ تحقیق)2003
- " معجزہِ قلم " ( رباعیات ،قطعات و قصائد کا مجموعہ ) 2004
- " کلیاتِ حسین " حسن عباس زیدی مرحوم کی شاعری کی کلیات 2005 میں ان کی تالیف اور تدوین سے طبع ہوئی ۔
- " تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا " انکا پہلا سفر نامہ شائع ہوا۔ اگست 2006
- " زینتِ ہستی " ماں کے موضوع پر لکھا ہوا مرثیہ ہے۔2007
- "عطائے رضا " کے نام سے امام رضا علیہ السلام کا مرثیہ ہے۔2007
- جہانِ نعت (انٹرنیٹ ایڈیشن )[2]
- رو رہا ہے آسمان " مرثیوں کاایک اور مجموعہ(زیرِ ترتیب )
- " بادل۔ چاند اور میں " غزلوں کا مجموعہ(زیرِ ترتیب )
- " گونگی آنکھیں "غزلوں کا مجموعہ(زیرِ ترتیب )
صفدر ہمدانی کی شخصیت و فن پر تحقیقی مقالات
ترمیم2012 میں ایجوکیشنل یونیورسٹی لاہور سے ایم اے آر بی ایڈ فائنل کی ایک طالبہ مس مصباح ا اعظم نے جناب ہمدانی صاحب کی معیاری اور دل سوز ’’ مرثیہ نگاری ‘‘ پر تحقیقی تھیسس لکھ کر کامیابی حاصل کی ہے یہ تھیسس ایک کتاب کی شکل میں چھَپ چکی ہے۔[3]
سیدہ ثمر جعفری نے سیشن 2016- 2018 میں اپنا ایم فل کا مقالہ بعنوان صفدر ہمدانی کی ادبی خدمات گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے مکمل کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔[4]
مزید پڑھیے
ترمیم