طاہرہ مظہر علی
طاہرہ مظہر علی (5 جنوری 1924ء۔ 23 مارچ 2015ء) بائیں بازو کی ایک پاکستانی سیاسی کارکن، خواتین کے حقوق کی مہم چلانے والی اور بے نظیر بھٹو کی استانی تھیں۔ ان کے بچوں میں برطانوی پاکستانی سیاسی کارکن طارق علی ، [1] توصیف حیات اور آسٹریلیائی صحافی ماہر علی شامل ہیں۔[2][3]
طاہرہ مظہر علی | |
---|---|
طاہرہ مظہر علی | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 5 جنوری 1924ء لاہور |
تاریخ وفات | 23 مارچ 2015ء |
قومیت | پاکستان |
اولاد | طارق علی |
والد | سکندرحیات خان |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | بائیں بازو کی سیاسی و سماجی کارکن |
کارہائے نمایاں | رکن کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی بانی |
درستی - ترمیم |
ابتدائی اور پیشہ ورانہ زندگی
ترمیمطاہرہ، برطانوی ہندوستان کے شہر لاہور میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنی بنیادی تعلیم لاہور کے قوئین میری اسکول سے حاصل کی۔ ان کی شادی 17 سال کی عمر میں ہوئی۔ ان کے شوہر مظہر علی خان (1917 – 1993) پاکستان ٹائمز کے ایک صحافی اور ایڈیٹر تھے اور سوشلسٹ جھکاؤ رکھتے تھے۔[4][5] طاہرہ پنجابی سیاست دان اور برطانوی پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ سکندر حیات خان (1892 – 1942) کی بیٹی اور سردار شوکت حیات خان (1915 – 1998) اور بیگم محمودہ سلیم خان (1913 – 2007) کی چھوٹی بہن تھیں۔[6]
طاہرہ اپنے شوہر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی اور پروگریسو پیپرز لمیٹڈ (پی پی ایل) کا حصہ تھیں۔ [7][8][9][10][11] طاہرہ مظہر علی کو جنرل محمد ضیاء الحق کی آمریت کی بھرپور مخالفت کرنے پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ وہ خواتین کے حقوق کی جنگ کے لیے کارکنوں کے احتجاج میں شامل ہونے والی پہلی خاتون تھیں، خواتین کے حقوق پر ضیا کے حملے کی مزاحمت کر رہی تھیں۔ [12] اگرچہ وہ ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئی تھی، لیکن 60 سال سے زیادہ عرصہ تک مزدوری اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن رہیں۔ طاہرہ مظہر علی نے 1950 میں پاکستان میں ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن (DWA) تشکیل دی۔ پاکستان میں پہلی بار ان کی سربراہی میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا جہاں کھلے عام سے مطالبہ کیا گیا کہ خواتین کو مساوی حیثیت اور حقوق دیے جائیں۔ زندگی کے آخری سالوں میں انھیں فالج کے حملے ہوئے، جس سے وہ جزوی طور پر مفلوج ہو گئی تھیں۔ انھوں نے بہت سی ممتاز پاکستانی خواتین کی استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
موت اور میراث
ترمیمطاہرہ مظہر علی 23 مارچ 2015 کو لاہور میں فوت ہوئیں۔[13][14][15] تجربہ کار پاکستانی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن آئی اے رحمان نے ڈان اخبار میں انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ "سچی کارکن" تھیں۔[16] اور انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین خواتین کے حقوق اور قیام امن کی کوششوں کے لیے ان کی خدمات کا ذکر کیا ہے۔[17]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "ایک یاد ۔ایک عہد"۔ jang.com.pk
- ↑ Omar Waraich (29 March 2015)۔ "Tahira Mazhar Ali: Women's rights campaigner who was the mother of Tariq Ali and acted as mentor to Benazir Bhutto"۔ Independent (UK newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2019
- ↑ "Tahira Mazhar Ali Khan, 1925-2015"۔ The Friday Times (newspaper)۔ 27 March 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2019
- ↑
- ↑ "MEMORABLE ROMANCE: Tahira & Mazhar Ali Khan – Good Times"۔ www.goodtimes.com.pk
- ↑ Shaukat Hayat Khan 'The Nation that Lost its Soul: Memoirs', Lahore, 1993
- ↑ "ذکر کچھ انقلابی عورتوں کا"۔ مکالمہ۔ 8 March 2017
- ↑ Caravan Desk۔ "Tahira Mazhar Ali Khan - A Woman Extraordinaire"۔ 03 دسمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2020
- ↑ "Tahira Mazhar Ali: The Peerless Communist | Peoples Democracy"۔ peoplesdemocracy.in
- ↑ "Tahira Mazhar Ali Khan: the end of an era"۔ Daily Times۔ 13 April 2015
- ↑ "Tahira Mazhar Ali"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)
- ↑ "Torchbearer for a progressive politics"۔ The Indian Express (بزبان انگریزی)۔ 28 March 2015
- ↑ Xari Jalil (24 March 2015)۔ "Tahira Mazhar Ali's death a profound loss to many"۔ Dawn (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2019
- ↑ Our Special Correspondent (17 May 2015)۔ "Tahira Mazhar Ali – an unflinching Leftist"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ "Veteran leftist activist Tahira Ali laid to rest"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 24 March 2015
- ↑ "جب کرکٹ نے سرحد مٹا دی"۔ Urdu News – اردو نیوز۔ 28 January 2020
- ↑ "عورت مارچ جمہوریت کی لڑائی ہے"۔ urdu.geo.tv