طاہر عدیم
طاہر عدیم صاحب پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک اردو شاعر ہیں جو آج کل جرمنی میں مقیم ہیں۔آپ کا اصلی نام عبد الغفور طاہر ، قلمی نام طاہرعدیم ہے۔ آپ کے شعری مجموعے “ بامِ بقا “ “ تم کبھی بے وفا نہ کہنا “ “ ترے نین کنول “ اور “ بوسہ “ کے نام سے شائع ہو کر داد و تحسین وصول کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ “ کشکول “ “ سکوتِ برزخ “ اور “ مِرے بابا نے کہا “ زیرِ ترتیب ہیں ۔ آپ جرمنی میں اردو ادب کی بڑھ چڑھ کر خدمت کرنے والی ادبی تنظیموں “ حلقہِ اربابِ ذوق جرمنی “ اور “ یارانِ نکتہ داں “ کے صدر بھی ہیں ۔۔۔ مختلف اداروں اور ادبی تنظیموں کی جانب سے ان گنت اسناد و اعزازات اور ایوارڈز سے بھی نوازے جا چکے ہیں
طاہر عدیم | |
---|---|
پیدائش | طاہر عدیم
نام؛ عبد الغفور طاہر قلمی نام طاہر عدیم14.04.1973 منڈی روڑالہ روڑ تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد پاکستان |
پیشہ | اردو شاعر |
قومیت | پاکستانی |
نسل | پنجابی راجپوت |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایم ایس سی ( لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس |
مادر علمی | چنیوٹ ، سرگودھا جامعہ پنجاب |
اصناف | اردو غزل ، اردو نظم ، پنجابی غزل |
شریک حیات | وجیہہ طاہر ( مِٹھّی بیگم ) |
اولاد | سجاول سلطان طاہر ( بیٹا )
امیرہ کائنات عرف تتلی ( بیٹی ) سلطنت طاہر عرف بوسکی ( بیٹی ) محمد طاہر عرف مِٹھا بابا ( بیٹا ) |
ابتدائی زندگی اور تعلیم و تربیت
ترمیم14اپریل 1973ء کو منڈی روڑالہ روڈ تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاذ چنیوٹ سے کیا اور بعد ازاں بالترتیب میٹرک،ایف اے،بی اے سرگودھا سے کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے لائیبریری اینڈ انفارمیشن سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔1996ء میں اپنے ماموں کی بیٹی وجیہہ طاہر صاحبہ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد 1997ء میں جرمنی آ گئے اور تاحال یہیں مقیم ہیں۔اور یہاں کی ٹھنڈی ٹھار سر زمین پراپنے شب و روز گزار رہے ہیں ایسی سر زمین جو مادہ پرستی کی دبیز چادر اوڑھے ہوئے ہے،ایک ایسے انسان ،جو جمالیاتی حسوں سے بھرپور ہو۔۔۔ کا ایسی سر زمین پر رہتے ہوئے اپنی شاعرانہ جادوگری کا کمال دکھاتے رہنا کوئی آسان کام نہیں۔
شاعری کا آغاز
ترمیمطاہر عدیم نے پہلا شعر بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پہلی غزل 1990ء میں کہی جو گورنمنٹ کالج سرگودھا کے ایک طرحی مقابلے کے لیے کہی گئی تھی۔۔ حسنِ اتفاق دیکھیے کہ ان کی کہی پہلی غزل ہی سرگودھا ڈویژن میں اول انعام کی مستحق قرار پائی جس سے ان کے حوصلے بلند ہو گئے۔۔ ان کی مزید حوصلہ افزائی کے لیے ان کے والد نے اپنے دیرینہ دوست اور پنجابی کے استاد شاعر پروانہ شاہ پوری صاحب کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دیااور یوں طاہر عدیم صاحب کے شعری سفر کا باقاعدہ آغاذ ہُوا۔۔ یہاں ایک چھوٹے سے واقعے کا بھی ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب طاہرعدیم نے اپنے شعری سفر کے پہلے سال ہی نعتوں،غزلوں اور نظموں کے ڈھیر لگا دیے تو ان کے والد نے اپنے طور پر کسی خیال کے تحت اپنے ایک دوست اور اردو کے ایک بڑے شاعر علامہ رشک ترابی صاحب سے گفتگو کے دوران ان کی شاعری کا ذکر چھیڑااور پوچھا کہ ان کی شاعری کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں وہ ان کے والد کا مطلب سمجھتے ہوئے کچھ دیر خاموش رہے اور پھر کہنے لگے کہ میں نے ہر طرف نظر دوڑائی ہے اس لڑکے کے دامن میں جو کچھ ہے وہ اس کا اپنا ہے اور اس میں کسی کی بھی آمیزش نظر نہیں آتی۔۔۔ مزید انھوں نے یہ بھی کہا کہ “ یاد رکھیئے گا کہ آپ کا یہ لڑکا ایک دن میری قبر کا چراغ بنے گا “ علامہ صاحب تو اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر آپ لوگ گواہ ہیں کہ یہ چراغ نہ صرف خود پوری طرح جل رہا ہے بلکہ اردو شاعری میں کئی اور چراغ بھی جلانے کا باعث بھی بنا ہے۔
طاہرعدیم نے شروع سے لے کر اب تک اپنی شاعری میں اپنا مافی الضمیر ویسے ہی بیان کیا جیسا کہ اس نے اپنی جنم بھومی میں رہتے ہوئے سیکھا تھا۔۔ وہ اتنا سخت جان ہے کہ یورپ کے ماحول میں رہتے ہوئے بھی اپنی روش پر قائم دائم ہے،مجال ہے جویہاں کی زندگی نے اس پر کوئی ایسا اثر چھوڑا ہو کہ وہ اپنی اقدار کو چھوڑ کر یہاں کے رنگ روپ میں ڈھل جائے۔۔۔۔۔۔ اس کی کتابوں کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس کے مشاہدے میں باالترتیب جو جو واقعات،حادثات،سانحات،خوشی،غمی کے آئے وہ کسی بھی مشاہدے سے فوری طور پر متاثر ہوئے بغیر بالکل ویسے ویسے ان تمام ہونیوں اور ان ہونیوں کا ذکر اپنی شاعری میں کرتا چلا گیا ہے جیسے جیسے وہ وقوع پزیر ہوتی رہی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری ایک زنجیر کی شکل اختیار کرتے ہوئے پورے تسلسل سے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے مستقل مزاج ہونے کی دلیل بھی بنتی جا رہی ہے۔
طاہرعدیم حادثاتی نہیں بلکہ ایک فطری شاعر ہے۔۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاعری اسے اپنے آبا و اجداد سے ورثے میں عطا ہوئی ہے۔ اس کے بچپن کو دیکھیں تو گھریلو ماحول میں والدہ ماجدہ کا َبلا کا ادبی ذوق و شوق۔۔۔۔۔۔ والدِ مکرم صوفی طبع انسان اور صوفیائے کرام کے کلام کے دیوانے۔۔۔۔۔ نانا میاں غلام اللہ اسلم صاحب خوبصورت لب و لہجے میں شعر کہنے والے۔ مزید اوپر جائیں تو اس کے پڑنانا میاں غلام محمد صاحب جو اپنے وقت کے بہت بڑے ذاکر تھے اور مرثیہ گوئی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔۔۔۔ اسی طرح آج بھی طاہر عدیم سمیت اس کے خاندان میں اردو اور پنجابی کے شعرا کی ایک قطار نظر آتی ہے جن میں سے طاہرعدیم سمیت بعض تو نوجوان نسل کے نمائندہ شعرا کہلانے کا حق بھی رکھتے ہیں۔
نمونہ شاعری
ترمیمطاہر عدیم ایک منہ زور شاعر ہے ۔۔ شاعری اس کے اندر ہر گھڑی ابال کھاتی نظر آتی ہے،طبیعت کی موزونیت اپنی جگہ۔ لیکن کسی بھی موقع،جذبہ،لطیف حسوں کے اظہار،خوشی غمی،محبت نفرت۔ یعنی کوئی بھی حالت ہو اس کے اندر تخلیقی قوت کا سٹاک اسے ہمیشہ مناسب ترین مواد مہیا کرتا رہتا ہے اور فی البدیہہ اشعار کہنے میں تو اس کے دو ست اور احباب بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ایک خاص ملکہ رکھتا ہے۔ یہاں اس کے کہے گئے چند فی البدیہہ اشعار کا ذکر مناسب سمجھوں گا جو اس نے اپنے دوستوں سے فی البدیہہ گفتگو کے دوران کہے۔ مثلا
وہ سورج دے کے آنکھیں لے گیا ہے
سخی کیسی سخاوت کر گیا ہے
فقط اک گھونٹ ہے دل کو لبالب جام دریا کا
سمندر دسترس میں ہو تو پھر کیا کام دریا کا
الجھنیں اس دل کی سلجھاتے جوانی ڈھل گئی
وقت کی بندوق آخر کنپٹی پر چل گئی
تصوف سے لگاءو
ترمیمطاہر عدیم کے دل میں تصوف کی جوت جگانے والے یقینا ان کے والد ہی ہیں جو اپنی آخری سانسوں تک خود بھی اسی ڈور سے بندھے رہے۔ یقینا وہ بھی اس بات سے بخوبی آگاہ رہے ہوں گے کہ تصوف انسان کو انتہائی کٹھن اور دشوار گزار راستوں پر لے جاتا ہے جو ایک بار ان راستوں پر چل پڑے وہ زندگی کی بے اثباتی کو آسانی سے قبول کرنے کی حالت میں آ جاتا ہے،مگر دوسری طرف اکثریت اسے قبول نہیں کرتی ا ور اناالحق کا نعرہ لگانے والوں کو دار کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ صاحب کے یہ دو اشعار چونکا دینے والے ہیں اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا اس کے سفر نے ایک نیا موڑ لینا تو شروع نہیں کر دیا آپ بھی ان اشعار سے یقینا لطف اُٹھائیں گے۔
موجودگی کا اُس کی یہاں اعتراف کر
اے کعبہِ جہاں ۔۔ مرے دل کا طواف کر
کب تک فسوں میں موسمِ یکسانی رہے
اے رائج الجہان!!!! نیا انکشاف کر
معاشرتی جبر جو تھرڈ ورلڈکے ہر انسان کا ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے،گھٹن زدہ معاشرہ جس میں فطری جذبوں کا اظہار تک اجیرن ہو۔۔ امن کی فاختہ پر ظلم اور شر کی چیلیں اپنے پر پھیلائے منڈلاتی نظر آئیں ۔۔ آزادی اور ڈھنگ سے زندگی گذارنے کا تحفظ دور دور تک نہ ہو تو پھر طاہر عدیم کو کہنا پڑتا ہے کہ
پی گئی وہ اس لیے پانی میں ان کو گھول کر
گر جلاتی خط مرے تو خاک اڑتی شہر میں
ہمارے ہاں اکثر اپنی پہچان اور موجودگی بھی ایک اہم مسئلہ بنی رہتی ہے کیا یہ ستم نہیں ہے کہ ہم گمشدہ لوگوں کی طرح زندگی کرتے چلے جا رہے ہیں اور ان ہونے مسائل کو مسائل بناتے ہوئے اپنی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں طاہرؔ عدیم نے ان مسائل سے بھی پردہ اٹھایا ہے مگر وارداتی انداز میں۔۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ
میں سچ ہوں اور سامنے تیرے کھڑا ہوں میں
کرنا ہے میری ذات سے، اب انحراف کر
لے ایک ایک شخص میرا ہم زبان ہے جا!!!
ایک ایک شخص کو میرے خلاف کر
لیکن مادیت پرستی کے اس ماحول کا اس پر جلد ہی انکشاف ہوتا ہے اور وہ بڑی احتیاط سے نرگسیت کا خول اوڑھتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے واپس چلا آتا ہے کہ
میں خود پہ اوڑھتا ہوں تیرے پیار کی ردا
تو خود پہ میری چاہ کا اُجلا لحاف کر
اس تلخیِ حیات کے لمحوں کا ہر قصور
میں نے معاف کر دیا ۔۔ تو بھی معاف کر
طاہرؔ عدیم ذہنی طور پر بھی ایک جیتا جاگتا انسان ہے اور انسان کے فطری تقاضوں کے مطابق عمل اور ردِ عمل کی حالتوں سے بھی گذرتا ہے بلکہ اپنے ردِ عمل کو بعینہِ اشعار کی شکل دے دیتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں گو بہت محبت کرنے والا انسان نظر آتا ہے لیکن انسانی رویے جب اس کو نفرت کرنے کا سامان مہیا کرتے ہیں تو وہ فطرت کے عین مطابق اس کا اظہار کرنے سے بھی ذرا نہیں کتراتا۔ اور بعض اوقات اس کا رویہ شدت بلکہ باغی پن تک اختیار کر لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ ان کیفیات کی چند مثالیں اس کی شاعری سے ۔۔۔
آنکھوں میں ہے کیسا پانی بند ہے کیوں آواز
اپنے دل سے پوچھو جاناں! میری چپ کا راز
تیری مرضی خوشیوں کے یا چھیڑ غموں کے راگ
تو میری سُر تال کا مالک میں ہوں تیرا ساز
اس کے زخم کو سہنا۔۔ رہنا اُس میں ہی محصور
اُس کے ظلم پہ ہنس کرکہنا ۔۔ تیری عمر دراز
یا پھر
یہ جسم دل و جاں تو ہیں بِن مانگے ہی تیرے
پھر کیا ہیں ترے دستِ طلبگار کے معنی
جاتا ہے تو جاتے ہوئے گھر کو بھی جلا جا
جب تُو ہی نہ ٹھہرے گا تو گھر بار کے معنی
اور جب اس کا رویہ شدت اختیار کرتا ہے تو بے ساختہ کہ اُٹھتا ہے۔۔۔۔۔۔
تو نے جو دیا ہمیں اُس سے بڑھ کے دیں گے ہم
بے وفائی اصل زر،نفرتوں کو سُود میں
اور پھر یہ شعر کہ ۔۔۔
نا خوش! ہر ایک غم سے تجھے پاک کر دیا جا!
جائدادِ دل سے تجھے عاق کر دیا
یا پھر یوں کہ
وہ درد، وہ وفا، وہ محبت تمام شد
لے دل میں تیرے قُرب کی حسرت تمام شد
تو ُاب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رہا
اُٹھتی تھی جو کبھی وہ عداوت تمام شد
وہ روز روز مرنے کا قصہ ہُوا تمام
وہ روز دل کو چیرتی وحشت تمام شد
اور پھر اپنی اس شدت کو آ خری شکل دیتے ہوئے اپنی محبت کے تابوت میں یہ شعر آخری کیل کے طَور پر گاڑ دیتا ہے
یہ بعد میں کُھلے گا کہ کس کس کا خوں ہُوا
ہر اک بیان ختم۔۔۔ عدالت تمام شد
طاہر کی شاعری کے مطالعہ کے دوران بار ہا اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مختلف رشتوں کے بندھنوں میں بندھا یہ شاعر اپنے اندر ایک آفاقیت لیے بیقراری کی کیفیت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔۔۔ اس بارے میں اس کا اپنا ایک شعر صادق آتا ہے کہ
شکستہ دل، پلک پر بحر و بر کس نے اتارے
ہیں ذرا سی جان میں اتنے ہنر کس نے اتارے ہیں
اس نے اپنی شاعری میں رشتوں کے اثبات کا جو ثبوت دیا ہے وہ اس کے ہمعصر شعرا میں خام خام ملتا ہے اس کی شاعری میں ارد گرد کے ماحول،انسانی رشتے ناطے اور ان کی کارگذاریوں کا بھی واضح عکس نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر اپنے بیٹے کے لیے لکھی گئی اس کی ایک فی البدیہہ غزل کے چند اشعار دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنی کر دے سر بہ سر مولا
اس کی آنکھوں میں نور بھر مولا
اس کی پرواز ہو ثریا تک
کر دے مضبوط اس کے پر مولا
اس کی خوش قسمتی رہے دائم
اس سے قائم ہے میرا گھر مولا
شبِ تیرہ میں میرے کمسن کے
حوصلوں کو بلند کر مولا
اور جو کچھ نہ کہ سکا بابا
کہ رہی ہے یہ چشمِ تر مولا
اور پھر یہ شعر کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف کہنا ہے لفظِ کُن تُو نے
صرف لگنا ہے لمحہ بھر مولا
یہ ایک ایسی غزل ہے جو یقینا طاہر کو شہرتوں کی بلندیوں تک لے جا سکتی ہے،کیوں کہ اس میں بے ساختگی کے ساتھ اپنے بیٹے کے لیے کی گئی ایسی دعا ہے جو ہر نرم دل انسان کو اپنے دل کی دعا اور خواہشات کی ترجمانی کا احساس دلاتی ہے۔ رشتوں کے اثبات کے اسی سلسلے کی ایک نظم ۔۔۔ اندھیرے پھانکنا چھوڑو۔۔۔۔ جو اس نے اپنے بڑے بھائی سجاد ساجن کے لیے کہی ہے اندھیرے پھانکتے ہوئے انسان کو اجالوں کی طرف لانے میں یقینا اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔
رفیق حیات
ترمیمجیسا کہ مشہور ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے بالکل اسی طرح طاہر عدیم کی شاعری میں بھی وہ چہرہ جا بجا اپنی چھب دکھاتا نظر آتا ہے جو اس کی کامیاب شاعری کے پیچھے ہے اور جس کی محبت نے اسے یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ۔۔۔۔۔
خود جاتے ہیں الفاظ میں ڈھل تیرے نین کنول
میں لکھتا نہیں ،لکھتے ہیں غزل،تیرے نین کنول
شاداب ،شفیق ،شگفتہ ہیں،شبنم بھی ہیں سچل
سچُے ،سَچے ہیں،سجل،تیرے نین کنول
ہر دھوپ پہ مجھ پر سایا ہے تیری پلکوں کا
مرے ساتھ سفر میں ہیں پل پل ،تیرے نین کنول
اسی تسلسل میں اسے اپنی ذات کی جھیل میں صرف ایک ہی چیز دکھائی دیتی ہے جس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ۔۔۔۔
اس دنیا میں ہے جھیل سے گہری ذات مری
اور جھیل میں ہیں بس دو ہی کنول۔۔۔ تیرے نین کنول
ظاہر ہے کہ یہ چہرہ اس کی رفیقِ حیات کے علاوہ اور کس کا ہو سکتا ہے جس کے لیے اس نے غزلوں اور نظموں کے ڈھیر لگا دیے ہوئے ہیں۔ ہیرمن ہیسے جو جرمنی کے بہت پائے کے ادیب گذرے ہیں،،جب جستجو اور تلاش کی دُھن انھیں کو بہ کو پھراتی برِ صغیر کی طرف لے کر جاتی ہے تو وہ اس اجنبی سر زمیں پر اپنی شہرہ آفاق کتاب ،،سدھارتا،، تخلیق کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی چیز ہمارے شعرا کے ہاں بھی بیدار ہونی چاہیے کہ یہاں رہتے ہوئے،یہاں کے ماحول،نشیب و فراز اور واقعات کو بھی اشعار میں تصویر کیا جائے۔
طاہر عدیم کے اندر کا بے چین شاعر مسلسل تلاش تلاش اور تلاش کا آوازہ لگاتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے لگتا ہے وہ صدیوں سے کوئی کھوئی ہوئی چیزڈھونڈ رہا ہے۔ اگرکچھ ہاتھ آتا بھی ہے تو ایک نئی تلاش اسے سرگرداں کیے رکھتی ہے،یعنی دل کے درد کا صدیوں سے ہونا یا پھر تلاش کی صدیوں پر مبنی ریاضت۔۔۔۔ ایسے سفر زندگی کی دلیل اور ایک اعلیٰ و ارفع سچائی ہوتے ہیں،مگر ان کی سمت کا تعین،منزل کی جانکاری،مقصدیت کی موجودگی کا ہونا سب سے ضروری ہے۔۔۔۔۔ طاہر کے اشعار اکثر اپنے شکنجوں میں جکڑ لیتے ہیں مگر ابھی تک اس کی سمت کے تعین کا اندازہ نہیں ہو پایا، کیا وہ ایک خاص سمت کو رواں دواں ہے یا وقت کے بے رحم تھپیڑوں کے رحم و کرم پراس نے زندگی کی پتنگ کو چھوڑ رکھا ہے۔
جیسا کہ وہ خود ہی کہتا ہے۔۔۔۔
رواج و رسم نہ گھر بار کے مسافر ہیں
ہم اور لوگ ہیں،اُس پار کے مسافر ہیں
سفر قدیم سے درپیش کون سا ہے ہمیں
نہ جانے کون سی دیوار کے مسافر ہیں
نہ منزلوں کا تعین،نہ راستوں کی خبر
ہم ایسے لوگ تو بیکار کے مسافر ہیں
طاہر عدیم نے یہ تو کہ دیا کہ
ہیر اگرچہ میں نے اپنی پا لی ہے
ڈھونڈ رہا ہوں تخت ہزارا صدیوں سے
ایک ہی بات عبث دہرائے جاتا ہے
تن میں چلتا سانس کا آرا صدیوں سے
اور یہ شعر خاص طور پر کہ
اُس نے دل کے درد سے پوچھا ۔۔ کب سے ہو
دل سے اُٹھ کے درد پکارا ۔۔ صدیوں سے
طاہر عدیم اب اپنے فن کے اُس حصے میں ہے جس حصے کا ذکر امجد اسلام امجد نے فیضان عارف کے پہلے شعری مجموعے میں اس طرح کیا ہے کہ
٬٬یہ حصہ کسی بھی شاعر کی پوری شخصیت کا سب سے خوبصورت اور جاندارحصہ ہوتا ہے کیونکہ جوں جوں وہ معروف اور مقبول ہوتا چلا جاتا ہے وہ اپنی شاعری کی بجائے اس کی شہرت میں زندہ رہنا شروع کر دیتا ہے اور یوں اپنے تخلیقی امکانات کی جستجو کی بجائے اپنے چالو سکے چلانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔ اور اس ضمن میں فیشن کے طور پر عمومی مقبولیت کے موضوعات پر لکھنا یا اپنی علمیت یا بین الاقوامی فکری سطح کا اشتہار دینا اس کے اندر کی خوبصورتی کو بری طرح مجروح کر دیتا ہے۔۔ میں نے بہت سے شعرا کو اس عمل میں مبتلا ہو کر تباہ ہوتے دیکھا ہے وہ وقت سے پہلے اپنا قد بلند کرنے کی خواہش میں سرکس کے مسخروں کی طرح لوہے کی سلاخوں پر چلنا شروع کر دیتے ہیں اور بالآخر اس چکر میں ان کے چہرے ہی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں٬٬
خوشی اس بات کی ہے کہ طاہر عدیم سے تاحال ایسی کوئی غلطی سر زد نہیں ہوئی ہے۔ حساس دل رکھنے والا یہ شاعر اپنے اندر سچی اور معصوم خواہشوں کا ایک لا متناہی سلسلہ رکھتا ہے وہ روز مرہ کے اخبارات میں چھپنے والی خبروں اور رونما ہونے والے واقعات پر جب نظر دوڑاتا ہے تو اندر ہی اندر کُڑھتا ہے اور خود کلامی کی سی کیفیت میں کہنے لگتا ہے۔۔
جو نا ممکن ہے ممکن کر دکھائیں
کوئی تو شہر ایسا ہم بسائیں
جلائے ماں جہاں تختی نہ کوئی
نہ بچے سرد رُت میں کپکپائیں
جہاں نہ آسماں ٹوٹے کسی پر
جہاں پر زلزلے نہ سَر اُٹھائیں
سلامت سَر رہیں اپنے بدن پر
جہاں مظلوم جب بھی سَر اُٹھائیں
یہ کیسا شہر ہے جس کی یہ حساس د ل شا عر تمنا کر رہا ہے مگر وہ جب خواب ہی خواب میں معاشرتی ذلتوں اور نا انصافیوں کہ جنہیں ہمیشہ رہنا ہے۔۔۔ کا اظہار کر کے حقیقت کی دنیا کو لوٹتا ہے تو کہہ اُٹھتا ہے کہ۔۔
نہیں جس خواب کی تعبیر طاہر
وہ خواب اِس دل کو ہم کب تک دِکھائیں
طاہر عدیم نے اپنی شاعری میں جس انداز سے تراکیب، استعارات اور تشبیہات کو سجایا ہے وہ اس کے ہم عصر شعرا میں خال خال ہی نظر آتا ہے اس ضمن میں یہ چند اشعار درج ذیل ہیں۔۔۔۔
دِکھنے کو تو دِکھتے ہیں کئی رنگ سفر میں
آتا ہے بھنور بھی ترے رُخسار کے رستے
اور یہ کہ۔
آئینِ خیالات ہے ،آئینہئِ ِ فن تُو
ہے رونقِ سر چشمہئِ ِ اعجازِ سخن تُو
ہے شورشِ ہنگامہِ صبح تیرے ہی دم سے
شیرازہئِ شبنم سے جو پھوٹے وہ کرن تُو
روشن ہیں مری عمر کے ڈھلتے ہوئے سائے
جب تک ہے مرے ساتھ ،مرے عکس فگن تُو
طا ہر عدیم نے اپنی شاعری میں جس موضوع کو بھی چُنا،جس کردار کو بھی اپنی شاعری کی زینت بنایا ہے اس کے ساتھ بڑی استادانہ مہارت اور ایمانداری کا سلوک کرتے ہوئے اسے وہ لباس عطا کیا کہ پڑھنے والوں کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔۔۔۔ اس کے کلام میں جگہ جگہ ایسے اشعار ملتے ہیں کہ انسان اپنے جذبات کے مختصر اور جامع اظہار کے لیے انھیں اپنا ذریعہ بنا سکتا ہے ۔۔ مثلا
میرا حصہ چل کر مجھ تک آئے گا
رزق اگر پتھر کے اندر ممکن ہے
تمھارے ہجر میں جو حال ہے دِکھانا ہے
گلی سے ورنہ گذرنا تو اک بہانہ ہے
ضرور بول ،مگر بول نرم لہجے میں
اے میرے لختِ جگر۔۔گر بُرا نہ مانے تُو
خلاصہ
ترمیمطاہر عدیم عصرِ حاضر کی ایک معتبر آواز ہے جو شاعری کو نت نئے پیراہن دیتی ہوئی اور اردو غزل کے سمندر میں اپنا راستہ خود استوار کرتی بلند سے بلند ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ اس نے پرائے کا آئینہ مانگ کر اپنے خدوخال سنوارنے کی کبھی کوشش نہیں کی ہے۔۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے دامن میں جو کچھ بھی ہے وہ خالصتا اس کا اپنا ہے مگر اس کے باوجود اس کے اندر بے پناہ چھپے امکانات اپنے اظہار کے لیے مناسب وقت کے منتظر ہیں۔۔۔ اس کا فن اب ایک مشکل مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس سے توقعات وابستہ کی جا چکی ہیں ان توقعات پر وہ کتنا پورا اترتا ہے اس کا فیصلہ مستقبل کرے گااور اس کے اندر چھپے امکانات کے اظہار کے لیے اس وقت کے ہم منتظر رہیں گے اور امید کرتے ہیں کہ جب بھی میزانِ سخن سجے گا طاہر عدیم کا پلڑہ ہمیشہ بھاری رہے گا
تخلیقات اور شاعری
ترمیم- بامِ بقا (مطبوعہ)
- تم کبھی بے وفا نہ کہنا (مطبوعہ)
- ترے نین کنول (مطبوعہ)
- بوسہ ( مطبوعہ )
- کشکول ( زیرِ ترتیب )
- مِرے بابا نے کہا ( زیرِ ترتیب )
- سکوتِ برزخ ( زیرِ ترتیب )
- نمونہِ کلام
- عشق نے ہنس کر اُس عاشق پر ، رقص کیا
- جس عاشق نے عشق میں ڈر کر رقص کیا
- تجھ کو کیا معلوم کہ کس پر کیا بیتی
- تُو نے تو کچھ دیر سمندر رقص کیا
- چاند گھِرا تھا صحن میں چاروں جانب سے
- گھر کی ہر دیوار نے شب بھر رقص کیا
- میں نے ہم دونوں کے پیار پہ شعر کہا
- پھر اُس شعر میں ہم نے گھر گھر رقص کیا
- بُلّہے شاہ !! ہر یار برابر ہوتا نئیں
- میں نے تو دن رات سراسر رقص کیا
- صاحب اُس دہلیز کا منظر دیدنی تھا
- آنکھ نے جب شعلے کے برابر رقص کیا
- دن بھر ناچا گلی محلّوں میں طاہر
- شب آئی تو اپنے اندر رقص کیا
- طاہرعدیم
- —————————-
کردار اس میں جو بھی ہے اُجلی کتاب ہے
ترمیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاہر عدیم
————————————
اے زندگی ترا رستہ ٹٹولتا ہوا میں
پہنچ گیا ہوں کہاں خود کو رولتا ہوا میں
وہی ہے دل میں مرے زہر گھولتی ہوئی تُو
وہی ہُوں سانس کی ڈوری پہ ڈولتا ہوا میں
ہُوا ہوں ختم ، جو ہاتھوں کبھی لگائی گئیں
گرہیں تمام وہ دانتوں سے کھولتا ہوا میں
جو آبلے تھے سبھی ڈھل گئے ستاروں میں
پروں کو رہ گیا منظر میں تولتا ہوا میں
زمیں کاٹ دی طاہر ان آنسووں نے مری
اخیر گھُل گیا مٹی کو گھولتا ہوا میں
طاہر عدیم
——————————-
غزل
کر بھلا ، ہو بھلا چراغ جلا
تُو بھی آ بَر مَلا چراغ جلا
نعرہِ ہُو و رقص ، چہ معنی؟
عشق میں مبتلا چراغ جلا
یوں جلے گا رے ہوش مند کہاں؟
یہ لے جام ِ وِلا ، چراغ جلا
"شام" ہونے کو ہے , سجا آنگن!
کر نہ شکوہ گُِلا ، چراغ جلا
حیرتِ چشم ، چشمِ حیرت چھوڑ
سر کو سر سے ملا چراغ جلا
دیکھیے کیا ہو صورتِ احوال
زیر ِ تختِ وِلا چراغ جلا
کر دلوں کو قریب اور قریب
رہ نہ جائے خلا ..... چراغ جلا
روشنی روشنی پہ مرنے لگی
ہائے میں کیا جلا چراغ جلا
میں جلاتا ہوں تن بدن ، تُو بھی
حیرت ِ کربلا................چراغ جلا
طاہرعدیم
——————————-
عمر بھر خود کو جلایا آپ نے
پا کے مجھ کو ، کیا ہے پایا آپ نے
تخت دل دے کر مجھے...احسان ہے
خود کو کر ڈالا رعایا آپ نے
میں کہ اپنے آپ پر کھلتا نہ تھا
مجھ کو مجھ سے ہے ملایا آپ نے
پھیلتا جاتا ہے سارے جسم میں
دل میں جو پودا لگایا آپ نے
لفظ کاغذ پر اچھلنے لگ گئے
شعر میرا کیا سنایا آپ نے
اس میں ، آ کردیکھیے ، جاں پڑ گئی
تھا کبھی جو بت بنایا آپ نے
ہیں اندهیروں میں چمکتی انگلیاں
ہاتھ مجھ سے کیا ملایا آپ نے
پہلے رہنے کو مکان دل دیا
پھر بڑها ڈالا کرایا آپ نے
دس قدم آگے بڑھے گا وہ..... اگر
اک قدم آگے بڑهایا آپ نے
(طاہر عدیم )
——————————-
نہ میں' نہ تم .. رہے ہیں خوب دونوں
سر دار انا مصلوب دونوں
ہمیں تھے فاتحینِ عشق تو کیوں
رہے ہیں عمر بھر مغلوب دونوں
ہتھیلی پر ہو دل کے ساتھ جاں بھی
ہیں جرم عشق میں مطلوب دونوں
نکل کر جسم سے ہو جائیں.....آؤ
بقا کے بام پر مکتوب دونوں
نظر میں بھر گئے بوسے نظر کے
اور آخر ہو گئے مجذوب دونوں
کوئی صورت نہیں بچنے کی طاہر
محبت میں گئے ہیں ڈوب دونوں
طاہرعدیم
——————————-
مایوسی میں دل بے چارا صدیوں سے
ڈهونڈ رہاہے ایک سہارا صدیوں سے
ایک ہی بات عبث دہرائے جاتا ہے
تن میں چلتا سانس کا آرا صدیوں سے
ہیر اگرچہ میں نے اپنی پا لی ہے
ڈهونڈ رہا ہُوں تخت ہزارا صدیوں سے
تم سے کیسے سمٹے گا یہ لمحوں میں
دل اپنا ہے پارا پارا صدیوں سے
کس اعلان کو گونج رہا ہے نس نس میں
دهڑکن دهڑکن اک نقّارا صدیوں سے
دل پر کیا ہم نے تو جاناں! جان پہ بھی
لکھ رکھا ہے نام تمهارا صدیوں سے
اس نے دل کے درد سے پوچھا...کب سے هو؟
دل سے "اٹھ" کے درد پکارا "صدیوں سے"
خشک پڑا ہے آنکھ کے پردے پر طاہر
بحرِ درد کا ایک کنارا صدیوں سے
(طاہر عدیم )
——————————-
کہیں دیوار ہے تو در غائب
اور کہیں پر ہے سارا گھر غائب
ہم سفر ہے کہیں،سفر غائب
ہے سفر گر تو ہم سفر غائب
اے خدا کون سا طلسم ہے یہ
جسم موجود ہیں پہ سر غائب
شوقِ پرواز ہے سبھی میں مگر
طائرانِ چمن کے پر غائب
میں بھی بیعت کروں بہ دستِ ہُنر
دردِ دل کو جگر سے کر غائب
مجھ پہ پڑتی نہیں کوئی بھی نظر
میں بھی محفل میں ہُوں مگر غائب
تم رہو آنکھ میں تو بہتر ہے
دور ہوں گر تو بحر و بر غائب
یا تو موجود ہی نہیں وہ رہا
یا ہوئی آنکھ سے نظر غائب
عشق کے بام پر وہ ہے موجود
کاسہء شام سے قمر غائب
قحط کیسا پڑا ہے اب کے برس
دستِ فنکار سے ہُنر غائب
سامنے منزلیں سبھی معدوم
مڑ کے دیکھوں تو چارا گر غائب
زخم طاہر عدیم کیسے بھرے
ہر دوا سے ہُوا اثر غائب
(طاہر عدیم )
—————————-
دهنک نظر میں بسا کر لباس لکھوں گا
میں چاندنی کو ترا انعکاس لکھوں گا
کنارِ عشق سجاؤں گا آبلوں کے گلاب
لب ِفراتِ محبت پہ پیاس لکھوں گا
میں کائنات کو تشریح میں کروں گا رقم
چمکتی شب کو ترا اقتباس لکھوں گا
بہ لوحِ حُسن تراشوں گا خال و خد تیرے
ترے بدن کو بہ ہوش و حواس لکھوں گا
محبتوں کا بھرم اس طرح نبھاؤں گا
کہ ہجر میں بھی تجھے اپنے پاس لکھوں گا
وہ چاند جب بھی مرے دل کی اور اترے گا
بنامِ حسن لہو سے سپاس لکھوں گا
بچھڑتے وقت مرے واقف مزاج! بتا
جہاں میں کس کو محبت شناس لکھوں گا
عطائے زخمِ غزالاں کی لاج رکھنے کو
میں خوش ہوا بھی تو خود کو اداس لکھوں گا
خیالِ یاس کی رگ سے نچوڑ لوں گا لہو
تمازتِ رخِ صحرا پہ آس لکھوں گا
عطا کروں گا کسے فصلِ فکر کا ریشم؟
میں کس کے نام ہُنر کی کپاس لکھوں گا
نظر لگے نہ کسی کی اسی لیے طاہر
یقینِ وصل ہمیشہ قیاس لکھوں گا
(طاہر عدیم )
—————————-
پڑ گئے داغ بدن میں مرے بابا نے کہا
جب گرے اشک کفن میں مرے بابا نے کہا
گفتگو اس کی جو سنتا ہوں ، نظر آتی ہے
ایسا لہجہ ہے سخن میں مرے بابا نے کہا
روح کا جسم میں رہنا بھی ہے ایسے ، جیسے
آدمی اپنے وطن میں مرے بابا نے کہا
آنکھ جھپکی ہے تو منظر نہیں پہلے والا
اتنی لذت ہے چبھن میں مرے بابا نے کہا
سانس نکلے گی مرے دل سے یا وہ نکلے گا
ڈر ہے کس بات کا من میں مرے بابا نے کہا
بات وہ چشم تفکر کو نظر آتی ہے
جو عیاں ہو نہ سخن میں مرے بابا نے کہا
کوئی روتا ہے کہیں اپنی گھپا میں طاہر
چھینٹے پڑتے ہیں کفن میں مرے بابا نے کہا
طاہرعدیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی روشن کوئی تاریک نہیں ہے بابا
بن ترے کچھ بھی یہاں ٹھیک نہیں ہے بابا
اس کو ہر طور طریقے سے کریدا ہے مگر
دل میں اٹھتی کوئی تحریک نہیں ہے بابا
ورنہ اس عکس کو میں ہاتھ لگا سکتا تھا
ترا پہلو مرے نزدیک نہیں ہے بابا
عشق میں تیرا ہنر لے کے نکل جاتا ہوں
اب گرہ کوئی بھی باریک نہیں ہے بابا
ایسے رکھا ہے مری آنکھ کے جگنو نے اسے
کوئی بھی شب شبِ تاریک نہیں ہے بابا
وہ زمیں چومتا ہوں جس پہ قدم تھے تیرے
یہ مرا ہدیہِ تبریک نہیں ہے بابا
کوئی اس شہر میں واقف نہیں اپنا طاہر
کیا یہ اس شہر کی تضحیک نہیں ہے بابا
طاہرعدیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل (طاہرعدیم )
چلتے پھرتے ہیں جرائد مرے بابا نے کہا
دیں گے درویش فوائد مرے بابا نے کہا
دائرے کھینچ کے رکھے ہیں حصارِ دل میں
یہ ہیں نسبت کے قلائد مرے بابا نے کہا
ایسی تمثیل کہ تمثیل نہیں ہے جس کی
وقت جیسا کوئی قائد مرے بابا نے کہا
اس کا ایمان سے کچھ بھی نہیں لینا دینا
جس کے دل میں ہوں مکائد مرے بابا نے کہا
یہ رہِ عشق ہے اے عاشقِ نو یاد رہے!
ہر قدم پر ہیں شدائد مرے بابا نے کہا
علم کے ساتھ ہنر ہو تو کریں گے دل سے
تری تعظیم عمائد مرے بابا نے کہا
جذب و جاذب میں اے مجذوب کہاں کی بندش
کر کوئی شرط نہ عائد مرے بابا نے کہا
صرف انسان ہے انسان کی قیمت طاہر
بھول جا سارے عقائد مرے بابا نے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔