ظہور الحسن درس تحریک پاکستان کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنے والے جنہیں ۔قائد اعظم سندھ کا بہادر یارجنگ کہا کرتے تھے۔

ولادت ترمیم

آپ 9 فروری 1905ء کو کراچی میں مولانا عبد الکریم درس کے ہاں پیدا ہوئے۔

تعلیم و تربیت ترمیم

ابتدائی تعلیم والد ماجد مولانا عبد الکریم درس اور صوفی محمد عبد اللہ درس سے درسی نصاب میں تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے ۔ روحانی اعتبار سے خانوادہ گیلانیہ بغداد شریف کے ایک بزرگ سید عبد السلام الگیلانی القادری کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور سلسلہ قادریہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے ۔

سیاسی خدمات ترمیم

آپ 1940ء سے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور اہم عہدوں پر فائز رہے۔قائد اعظم آپ کو سندھ کا بہادر یارجنگ کہا کرتے تھے۔ سنی کانفرنس بنارس کے موقع پر صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی نے آپ کو جماعتِ اہلِ سنت کے احیاء کے لیے 50 روپے کا فنڈ عنایت فرمایا جس میں سے 23 روپے خرچ ہوئے اور باقی 27 روپے یہ کہہ کر حضرت صدر الافاضل کو واپس کر دیے کہ جماعت اب خود کفیل ہو گئی ہے

اصول پسند ترمیم

قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے عید الفطر اور عید الاضحی کی نمازیں آپ ہی کی اقتداء میں ادا کیں۔ اکتوبر 1947ء میں جب عید الاضحی کی نماز کے وقت قائد اعظم کے عید گاہ میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی اور اعلیٰ حکام نے آپ سے نماز کو کچھ وقت کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست کی تو آپ نے کہا کہ میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں چنانچہ انھوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے اور انھوں نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ نماز کے بعد قائد اعظم نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرأت ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علما کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔

تصنیفات ترمیم

مولانا ظہور الحسن درس کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں

  1. چشم تلطف پنجتن‘
  2. خون کے آنسو
  3. معادن ظہور الحسن
  4. تحقیق الفقہ اما فی کلمتہ الحق کے نام سرفہرست ہیں

وفات ترمیم

14 نومبر 1972ء کو مشہور عالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے وفات پائی اور کراچی میں قبرستان مخدوم صاحب نزد دھوبی گھاٹ کراچی میں آسودۂ خاک ہوئے

حوالہ جات ترمیم

[1]

  1. انوار علمائے اہلسنت سندھ