عالمی دستور (انگریزی: World constitution) ایک مجوزہ دستاویز ہے جس کا مقصد عالمی حکومت کا خاکہ فراہم کرنا ہے تاکہ ایسے قوانین، اصول اور خاکے مرتب کیے جاسکیں جس سے عالمی مسائل کو حل کیا جا سکے اور ممالک کے مابین تعلقات کی نگرانی کی جا سکے۔[1] اس عالمی دستور کا اصل ہدف بین الاقوامی باہمی تعاون، امن اور عالمی مسائل کو حل کرنا ہے۔[1]

جائزہ

ترمیم

عالمی آئین عالمی معاملات کو منظم کرنے اور ان پر حکومت کرنے کے لیے ایک مسودہ کا کام کرتا ہے۔ یہ عام طور پر عالمی اداروں کے اختیارات، اعمال اور ذمہ داریوں کا خاکہ پیش کرتا ہے اور فیصلہ سازی، تنازعات کے حل اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اصول قائم کرتا ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسا خاکہ بنانا ہے جو عالمی سطح پر اتحاد، انصاف اور پائیداری کو بڑھاوا دے۔[1]

عالمی دستوروں کی فہرست

ترمیم

تاریخ انسانی میں کئی بار عالمی دستور مرتب کرنے کی کوشش کی گئی اور ہر بار عالمی تنازعات اور بحران کے بعد اس پر زیادہ توجہ دی گئی۔ ان تمام تر کوششوں کا مقصد موجودہ بین الاقوامی قوانین کی حد بندی قائم کرنا اور عالمی حکومت کو بہتر بنانا رہا ہے۔[2][3][4]

مندرجہ ذیل کچھ مثالیں ہیں ؛

عالمی دستور کا بنیادی مسودہ، یونیورسٹی آف شکاگو، 1947ء

ترمیم

1948ء میں یونیورسٹی آف شکاگو نے عالمی دستور کا ایک بنیادی مسودہ مرتب کیا۔ رابرٹ مینرڈ ہوچن کی صدارت میں تیار شدہ اس مسودہ کا مقصد عالمی حکومت کے متعلق گفتگو کرنا اور اس موضوع کو وسعت کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا۔[5]

زمینی وفاق کا دستور ، 1960ء کی دہائی تا حال

ترمیم

البرٹ ائینساٹئن

ترمیم

البرٹ آئنسٹائن نے تدریجا دنیا کو ایک عالمی دستور کی جانب متوجہ کرایا۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ حالات کی کشش ثقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ موجودہ مسائل کے حل کے لئے ایک عالمی حکومت ہی واحد اور منطقی حل ہے۔[6][7] اکتوبر 1947ء میں اقوام متحدہ کے نام ایک کھلے خط میں انھوں نے کہا کہ موجودہ مسائل کے حل کے لیے بین القوامی باہمی تعاون اور عالمی حکومت کی اشد ضرورت ہے۔[8] سال 1948ء میں انھوں نے متحدہ عالمی وفاق کے صدر کورڈ میئر کو ملاقات کے لیے مدعو کیا[9][10] اور اس کے مشیر کے طور پر خود شامل ہوگیے۔[11][12] انھوں نے چندہ جمع کرنے میں مدد کی اور بہت سارا تعاون بھی کیا۔[12][13][14] انھوں نے متحدہ عالمی وفاق کو اپنی خواہشات کے قریب تر بتایا۔[15]

عالمی دستور سازی اسمبلیاں

ترمیم

1960ء کی دہائی میں عالمی دستور کا مسودہ تیار کرنے کی کوششیں تیز ہوئیں اور کئی پیمانے پر کام شروع ہوا۔ تھانے ریڈ اور فلپ آئیسلی نے ایک طرح کا تصدیق نامہ تیار کیا جس کا مقصد کسی بھی ملاقات میں جانبین کے لیے قوانین اور دونوں حکومتوں کے لیے اصول مرتب کرنا تھے۔[16] اسی ضمن میں کئی عالمی لیڈروں کو دعوت نامہ بھیجا گیا اور 5 حکومتوں نے دعوت قبول کرلی۔[17][18] نتیجتا عالمی دستور کنوینشن اور عوامی عالمی پارلیمان کا انعقاد وولفاک مغربی جرمنی 1968ء میں ہوا[19] 27 ممالک سے 200 سے زائد مہمانوں نے شرکت کی اور عالمی دستور کی مسودہ سازی کا کام شروع کردیا گیا۔[16] اسی ضمن میں دوسرا اجلاس 1977ء میں انسبروک، آسٹریلیا میں منعقد ہوا۔[16] وسیع گفتگو اور بحث و مباحثے کے بعد ایک مسودہ تیار کرلیا گیا جسے دستور زمین (Earth Constitution) نام دیا گیا۔ اس کا تیسرا اجلاس 1978ء-79ء میں کولمبو سری لنکا[20] اور چوتھا پرتگال میں 1991ء میں ہوا اور ہر بار دستور میں ترمیم کی گئیں۔[4]

عارضی عالمی پارلیمان

ترمیم

زمینی دستور عالمی وفاقی حکومت کا ایک خاکہ ہے۔[4] اسی زمینی وفاق کے تحت ایک عارضی عالمی پارلیمان کا قیام عمل میں آیا۔ اس پارلیمان کا کام عالمی مسائل پر گفتگو کرنا اور مختلف ممالک مندوبین کی باہم ملاقاتیں کرانا ہے۔[21]


مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ Edith Wynner، Georgia Lloyd (1949)۔ Searchlight on Peace Plans: Choose Your Road to World Government (بزبان انگریزی)۔ E. P. Dutton 
  2. Albert Einstein، Otto Nathan، Heinz Norden (1968)۔ Einstein on peace۔ Internet Archive۔ New York, Schocken Books۔ صفحہ: 539, 670, 676 
  3. "[Carta] 1950 oct. 12, Genève, [Suiza] [a] Gabriela Mistral, Santiago, Chile [manuscrito] Gerry Kraus."۔ BND: Archivo del Escritor۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2023 
  4. ^ ا ب پ "Global Strategies & Solutions : Preparing earth constitution"۔ The Encyclopedia of World Problems۔ Union of International Associations۔ 19 جولا‎ئی 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولا‎ئی 2023 – uia.org سے 
  5. "Guide to the Committee to Frame a World Constitution Records 1945–1951"۔ University of Chicago Library۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2019 
  6. Bernard T. Feld (مارچ 1979)۔ "Einstein and the politics of nuclear weapons"۔ Bulletin of the Atomic Scientists۔ 35 (3): 11–15۔ Bibcode:1979BuAtS.۔35c.۔.5F تأكد من صحة قيمة |bibcode= length (معاونت)۔ doi:10.1080/00963402.1979.11458591۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2023گوگل بکس سے 
  7. "A policy for survival: A Statement by the Emergency Committee of Atomic Scientists"۔ Bulletin of the Atomic Scientists (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2023 
  8. Albert Einstein، Otto Nathan، Heinz Norden (1968)۔ Einstein on peace۔ Internet Archive۔ New York, Schocken Books۔ صفحہ: 440–443 
  9. "LIFE – Hosted by Google"۔ images.google.com۔ 1948۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2023 
  10. "LIFE – Hosted by Google"۔ images.google.com۔ 1948۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2023 
  11. Albert Einstein، Otto Nathan، Heinz Norden (1968)۔ Einstein on peace۔ Internet Archive۔ New York, Schocken Books۔ صفحہ: 405 
  12. ^ ا ب Cord Meyer (1980)۔ Facing reality : from world federalism to the CIA۔ Internet Archive۔ New York : Harper & Row۔ صفحہ: 47۔ ISBN 978-0-06-013032-9 
  13. Meares, L.M.، اگست 9, 1947.، اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2023 
  14. Kirstein, William A.، جولائی 11, 1947، اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2023 
  15. Albert Einstein، Otto Nathan، Heinz Norden (1968)۔ Einstein on peace۔ Internet Archive۔ New York, Schocken Books۔ صفحہ: 558 
  16. ^ ا ب پ Terence P. Amerasinghe (2009)۔ Emerging World Law, Volume 1 (بزبان انگریزی)۔ Institute for Economic Democracy۔ ISBN 978-1-933567-16-7 
  17. "Letters from Thane Read asking Helen Keller to sign the World Constitution for world peace. 1961"۔ Helen Keller Archive۔ American Foundation for the Blind۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جولا‎ئی 2023 – afb.org سے 
  18. "Letter from World Constitution Coordinating Committee to Helen, enclosing current materials"۔ Helen Keller Archive۔ American Foundation for the Blind۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولا‎ئی 2023 – afb.org سے 
  19. "Als Interlaken die heimliche Welthauptstadt war"۔ Berner Zeitung (بزبان جرمنی)۔ 2018-08-29۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2023 
  20. M. P. Pandit (1979)۔ World Union (January–December) 1979۔ World Union International, India۔ صفحہ: 107 
  21. "World Parliament a necessity: CM"۔ The Times of India۔ 2004-08-15۔ ISSN 0971-8257۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2023