عالی سیدی
ڈراما رائٹر۔ڈراما پرڈیوسر۔کمپئیر۔اداکار۔صدا کار۔اور سب سے بڑھ کر بلوچستان میں اردو زبان کے سب سے پہلے سفرنامہ نگار
امتیاز احمد اور قلمی نام عالی سیدی ہے آپ 9 ستمبر 1949ء کو والی جاہ (ریاست محصور)
انڈیا میں پیدا ہوئے فائنل آرٹس ڈپلوما کیا اور صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا روزنامہ مشرق لاہور سے منسلک ہوئے اور 1974ء میں کوئٹہ مشرق کی ابتدائی ٹیم جس نے کوئٹہ سے آغاز کیا تھا آپ اس کے ارکان تھے اور بطور آرٹ ایڈیٹر آئے۔پھر آپ بچوں کا مشرق میں بطور بھائی جان انچارج بنے اور ایسی ادبی نرسری قائم کی جس نے بلوچستان کے ادب کو نکھار کے رکھ دیا آپ نے سینکڑوں رائٹر اس صوبے کو دیے آپ کی محبت و شفقت نے بچوں کو لکھنے کی ترغیب دی اور نامور کر دیا۔
آپ نے اپنا سفر نامہ ( میں نے بھارت دیکھا) لکھا جو روزنامہ مشرق کوئٹہ میں قسط وار شائع ہوا۔آپ نے بلوچستان کے اردو ادب میں بڑے دور رس اثرات چھوڑے۔ آپ مشرق ادبیات کے انچارج بھی رہے آپ نے بلوچستان میں اسٹیج ڈراما فیسٹول منعقد کرایا جس میں 300 سے زائد ڈرامے اسٹیج کیے گئے ہزاروں فنکاروں نے شرکت کی چالیس سال کی سروس کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ لی اور اپنا میگزین ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ اپنے جگری یار مرتضی مغل کے ساتھ جاری کیا۔ 2013ء میں آپ لاہور شفٹ ہو گئے اور آج کل وہاں (علم و ہنر فاونڈیشن ) کے ساتھ منسلک ہیں، [1]
عالی سیدی نے بچوں سے بھائی جان کا رشتہ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود قائم رکھا اخبارات میں بچوں کے صفحے کو ننھے منے ادیبوں کی نرسری کا نام دیاجا سکتاہے جہاں ننھے منے ادیبوں اور نو خیز قلم کاروں نے تربیت پائی اور علمی و ادبی دنیا میں اپنی شناخت کرائی عالی سیدی ایک ایسی ہی نرسری چلا رہے ہیں بچوں کے لیے لکھنا اگرچہ مشکل عمل ہے بچوں کا ادب تخلیق کرتے وقت عام اور نچلی سطح پر آ کر سوچنا پڑتا ہے لیکن عالی سیدی یہ مشکل کام تقریبا دو عشروں سے بڑے خوبصورت احسن اور دلکش انداز میں کر رہے ہیں کوئٹہ اسٹیج کے لیے سب سے زیادہ ڈرامے بھی آپ نے لکھے جب کہ فنکارکی حیثیت سے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے بلوچستان میں اردو سفر نامے کی عمر زیادہ نہیں ہے عالی سیدی کا سفر نامہ ( میں نے بھارت دیکھا) 1981 کے اوائل میں رائل پریس نے شائع کیا یہ بلوچستان میں اردو کا پہلا سفرنامہ ہے جو کتابی صورت میں شائع ہوا ۔
[2]
14 فروری 2022ء کو لاہور میں وفات پائی اور وہیں تدفین کی گئی،