عبد اللہ ابن عمیر ابو وہب کلبی

(عبدالله بن عمیر کلبی سے رجوع مکرر)

عبد اللہ ابن عمیر ابو وہب الکلبی امام حسین کے کربلا میں ساتھی تھے اور ان کے ساتھ کربلا کی لڑائی میں شہید ہوئے آپ کربلا سے گزرتے ہوئے امام سے ملے اور پھر ان کے ساتھ ہی ٹھہر گئے، آپ قبیلہ بنو کلب سے تعلق رکھتے تھے جو اس وقت زیادہ تر عیسائی تھا آپ بھی پہلے عیسائی تھے امام سے ملاقات کے بعد اپنی بیوی اور ماں کے ساتھ اسلام قبول کیا۔[1]

عبد اللہ ابن عمیر ابو وہب کلبی
معلومات شخصیت
وفات 10 اکتوبر 680ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کربلا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ تاجر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں سانحۂ کربلا   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آپ کی بیوی، ام وہب، کربلا کی شہید خواتین میں سے ہیں۔[2][3][4]

ابتدائی زندگی اور قبول اسلام

ترمیم

ابو وہب پیدائشی طور پر مسیحی تھے پھر اسلام قبول کیا۔ آپ کوفہ کے جانے پہچانے تاجر تھے۔[2][3][4] آپ کوفہ سے شادی کر کے لوٹ رہے تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کی ماں اور بیوی تھی۔ جب آپ کا کربلا سے گذر ہوا تو دیکھا امام حسین دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کے خاندان والے اور کچھ ساتھی ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ نے امام کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ آپ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور آپ کی عمر اس وقت 17 سال تھی۔

ابو وہب حسین ابن علی کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے انھوں امام کا کربلا میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا یہ جاننے کے باوجود کربلا میں امام کا ساتھ دینے کے کیا نتائج ہوں گے۔ ابو وہب لمبے اور چوڑے شانوں والے قوی انسان تھے۔ وہ لوگوں کے درمیان میں بہت باعزت تھے اور اپنی جرات و بہادری اور سپاہ گری کے لیے جانے جاتے تھے۔ [5]

قافلہ حسینی میں شمولیت

ترمیم

عبد اللہ بن عمير الكلبي (ابو وہب) طائفة بني عليم سے تھے اور شہر كوفہ کے باسی تھے۔جب آپ نے جيش كوفہ کو حسين ابن فاطمة بنت رسول اللہ سے جنگ کے لیے آمادہ دیکھا، تو نواسہ رسول اللہ کی حمایت میں جانے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے اپنی زوجہ ام وہب بنت عبد اللہ سے اپنے فیصلے کے بارے میں بات کی، اس نے اپنے شوہر کے فیصلے کی حمایت کی اور اس سے کہا: «یہ کتنی صائب اور عقلمندانہ رائے ہے، مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیۓ۔»وہ کوفہ سے رات گئے نکلے اور محرم کے آٹھویں دن کربلا پہنچے اور امام حسین کے قافلے میں شامل ہو گئے۔[6]

عبد اللہ بن عمير بن عباس بن عبد قيس بن عليم بن جناب الكلبي العليمي، أبو وهب۔

وہب کا کربلا کی لڑائی میں ڈوئل

ترمیم

اسلام قبول ،کرنے کے بعد امام نے ابو وہب کو اپنی طرف سے یزیدی فوجوں کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی۔ کربلا کی جنگ کے پہلے حملے میں زیاد کے غلام یاسر اور ابن زیاد کے غلام سلیم میدان میں نکلے اور حسینی فوج سے مبارزت طلب کی۔ اس موقع پر حبیب ابن مظاہر اور بریر بن خضیر ہمدانی نے ان کا چیلنچ قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن امام نے اجازت نہیں دی۔ [5]

جب ابو وہب نے اجازت مانگی تو امام نے دونوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت دے دی۔[5] ابو وہب نے میدان جنگ میں قدم رکھا اور دونوں چیلنج کرنے والوں نے انھیں اپنی شناخت بتانے کا کہا۔ انھوں نے اسے اپنے مقابل نا سمجھا اور حبیب ابن مظاہر، زہیر ابن قین یا بریر بن خضیر ہمدانی کو مقابلے کے لیے پکارا۔ یاسر نزدیک کھڑا تھا جسے ابو وہب نے کہا "تو زانی کے بیٹے! مجھ سے لڑنا نہیں چاہتا !?[5] یہ کہتے ہوئے اس نے یاسر پر حملہ کر دیا اور اس سے تلواربازی شروع کر دی لیکن اسی وقت سلیم نے اس پر تلوار سے حملہ کر دیا۔ اپنے آپ کو حملے سے بچاتے ہوئے ابو وہب نے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیاں گنوا دیں اور جوابی وار میں اس نے یاسر اور سلیم کو قتل کر دیا۔ دونوں کو مارنے کے بعد آپ رجز پڑھتے ہوئے واپس امام کے پاس آئے۔[5]آپ کی بیوی ام وہب یہ سب منظر دیکھ رہی تھی۔ آپ کے بہادرانہ حملے دیکھتے ہوئے وہ آپ کے پاس آئیں اور کہا: میرے ماں باپ تم پر فدا، ایسے ہی اچھوں کی حفاظت کرتے رہو، جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ہے۔[5]

شہادت

ترمیم

ابو وہب نے جوابی حملے میں حصہ لیا جب شمر نے امام حسین کی فوج کے میمنہ (دائیں بازو فوج) پر حملہ کیا۔ ابو وہب نے اس حملے میں 31 یزیدی سپاہیوں کو قتل کیا، جن میں 19 سوار اور 12 پیادے تھے۔ ہانی بن ثابت حضرمی نے آپ کا دایاں ہاتھ کاٹ ڈالا۔ [7] اور بکر ابن حی نے بایاں کاٹ ڈالا۔[8] ہاتھوں سے محروم ہونے کے بعد آپ کو پکڑ لیا گیا اور اسی وقت شہید کر دیا گیا۔[9] اس کے بعد آپ کا سر کاٹ کر حسینی کیمپ کی طرف پھینک دیا گیا، اسے آپ کی بیوی نے اٹھایا، اس نے سر سے خون صاف کیا اور پھر دشمن فوجوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ امام حسین نے یہ کہتے ہوئے انھیں واپس بھیجا، اللہ آپ پر رحم کرے، واپس جائیں، آپ کو جہاد شرکت کرنے سے چھوٹ ہے۔ آپ یہ کہتے ہوئے واپس گئیں "اے اللہ مجھے مایوس نہ کرنا!" حسین ابن علی نے کہا "اللہ تمھیں کبھی مایوس نہ کرے۔[9][10]

مقتل

ترمیم

آپ 10 محرم یوم عاشورا یہ رجز پڑھتے ہوئے دشمن پر حملہ آور ہوئے:۔[11]

إن تنكـروني فـأنـا بن كـلب حسبي بيتي فـي عليم حسـبي
إنـي امرؤ ذو مـرة وعصب ولـست بالخوار عند الـنكـب
إنــي زعــيـم لــك أم وهـــب بالطعن فيهما مقدما والضرب

عبد اللہ بن عمير (ابو وہب) اصحاب حسين میں سے مسلم بن عوسجہ کے بعد شہید ہونے والے دوسرے جانثار تھے۔ زیارت رجبیہ اور زیارت ناحیہ مقدسہ میں آپ پر سلام بھیجا گیا ہے۔ «السَّلامُ عَلى‌ عَبدِ اللَّهِ بنِ عُمَيرٍ الكَلبِيِّ»۔

کچھ معلومات

ترمیم

مشہور یہ ہے جناب ابو وہب نصرانی المذہب تھے وہ اپنی والدہ اور بیوی کے ساتھ سرکار سید الشہداءؑ کے دست حق پرست پر اسلام لائے تھے جیسا کہ روضہ الواعظین نیشاپوری ص224 عاشر بحار بحار ص 196۔۔۔ وغیرہ کتب سے ظاہر ہے صاحب فرسان الہیجاء صفحہ 137 پر لکھا ہے کہابو وہب مذکورہ کی تازہ شادی ہوئی تھی روز عاشور زفاف کو ابھی سترہ روز سے زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا جب انھوں نے نصرت فرزند رسولؐ میں جام حق پینے کا ارادہ کیا تو ان کی زوجہ ان کو خدمت امامؑ میں لائیں اور عرض کیا ! فرزند رسولؐ دو باتیں عرض کرنا چاہتی ہوں ایک یہ کہ میرا شوہر تو عنقریب نیزہ و تلوار کے وار سے رہسپار جنت ہو جائے گا اور چونکہ میرا یہاں کوئی مونس و غم گسار نہیں ہے اس لیے مجھے اپنے اہل حرم کے حوالے کر دیجیے دوسرے یہ کہ ابو وہب سے وعدہ لیجیے کہ فروائے قیامت مجھے فراموش نہ کریں امام علیہ السلام اس معظمہ کی ان باتوں سے بہت متأثر ہوئے اور گریہ کرتے ہوئے فرمایا تیری ہر دو باتیں منظور ہیں۔

بہر حال والدہ ابو وہب نے حکم دیا کہ ‘‘ قم یا بنی و انصر ابن بنت رسول اللہ ’’ بیٹا اٹھو اور دختر رسول کے بیٹے کی نصرت کا حق ادا کرو ابو وہب نے کہا ‘‘ افعل و لا اقصر ’’ مادر گرامی میں ایسا ہی کروں گا اور کوئی کوتاہی نہ ہو گی چنانچہ اس کے بعد یہ رجز پڑھتے ہوئے میدان وغا میں قدم رکھا۔

اس کے بعد خوب جانفشانی سے لڑے اور ایک جماعت کو واصل جہنم کرنے کے بعد اپنی ماں اور زوجہ کے پاس آ گئے اور والدہ سے پوچھا ‘‘ یا اماہ ا رضیت ’’ اے مادر گرامی ! کیا آپ میری کار کردگی سے خوش ہیں ؟ ماں نے فرمایا ‘‘ ما رضیت اما تقتل بین یدی الحسینؑ ’’ میں اس وقت تک ہر گز نہ راضی ہوں گی جب تک تم امام کے سامنے جام شہادت نہ نوش کر لو یہ سن کر زوجہ وہب نے کہا ‘‘ باللہ لا تفجعنی فی نفسک ’’ خدا کے لیے مجھے اپنا دکھ نہ پہنچایئے مادر وہب نے کہا ‘‘ یا بنی لاتقبل قولھا و ارجع و قاتل بین یدی ابن رسول اللہ فیکون غدا فی یوم القیامۃ شفیعا لک بین یدی اللہ’’ بیٹا اس کی باتوں پر توجہ نہ دو اور میدان میں جا کر فرزند رسولؐ کی نصرت میں جہاد کرو تاکہ بروز قیامت جناب رسول خدا بارگاہ ایزدی میں تمھاری شفاعت کریں چنانچہ جناابو وہب یہ رجز پڑھتے ہوئے پھر میدان کارزار میں داخل ہوئے۔

انی زعیم لک یا ام وہب

بالطعن فیہم تارۃ و الضرب

ضرب غلام مومن بالرب

حتی یذیق القوم مر الحرب

پھر بڑھ بڑھ کر حملے کیے یہاں تک کہ انیس سواروں اور بارہ پیادوں اور بروایاتے چوبیس سواروں اور بارہ پیادوں کو واصل جہنم کیا لڑتے لڑتے یکے بعد دیگرے ان کے دونوں ہاتھ قلم ہو گئے یہ کیفیت دیکھ کر ان کی زوجہ ایک گرز لے کر میدان میں نکل آئی وہب نے کہا یا تو تو مجھے روکتی تھی یا اب یہ کیفیت ؟ کہنے لگی مجھ سے آل رسول کی مظلومیت نہیں دیکھی جاتی ابو وہب نے اسے واپس کرنا چاہا مگر وہ کنیز خدا جوش شہادت میں نہ مانی اور جام حق نوش کرنے کی ٹھان لی ابو وہب نے امامؑ سے استغاثہ کیا امام علیہ السلام تشریف لائے اور سمجھا بجھا کر اسے واپس خیمہ میں لے گئے بروائتے شہادت ابو وہب کے بعد اس کی زوجہ ام وہب اس کی لاش پر پہنچی اور ان کے چہرہ سے گرد و خاک صاف کرنا شروع کی اس موقع پر شمر بن ذوالجوشن کے غلام یسار نے اس کے حکم سے اسے گرز مار کر شہید کر دیا ( بحار ج 10 ص 196 ) اور بالآخر جناب ابو وہب درجہ شہادت پر فائز ہوئے بروایتے ان کو زندہ پکڑ کر پسر سعد کے پاس لے جایا گیا پسر سعد نے کہا ‘‘ ما اشد صولتک ‘‘ اے جوان تیرا حملہ کس قدر سخت ہے پھر ان کو شہید کر دیا گیا اور ظالموں نے ان کا سر قلم کر کے سپاہ حسینیؑ کی طرف پھینک دیا ابو وہب کی والدہ نے وہ سر اٹھایا اسے بوسہ دیا اور پھر شاید یہ سمجھ کر کہ جو چیز راہ خدا میں دے دی جائے وہ واپس نہیں لی جا سکتی اسے اٹھا کر لشکر ابن سعد کی طرف زور سے پھینک دیا اتفاق سے وہ ایک شریر کو لگا ( بروائتے وہی وہب کا قاتل تھا ) اور وہ اسی سے واصل جہنم ہو گیا پھر گرز لے کر میدانِ جنگ میں نکل پڑی اور دو سپاہیوں کو جہنم رسید کیا امام علیہ السلام نے فرمایا ‘‘ ارجعی یا ام ابی وہب انت و ابنک مع رسول اللہ فان الجھاد مرفوع عن النساء ’’ اے ام ابی وہب ! واپس پلٹ آؤ ! کیونکہ عورتوں پر جہاد واجب نہیں ہے ام ابی وہب ! تم اور تمھارا بیٹا دونوں بارگاہ رسالت میں ہو گے امام عالی مقام کا ارشاد سن کر وہ مومنہ یہ کہتے ہوئے واپس لوٹی ‘‘ اللہم لا تقطع رجائی ’’ بار الہا ! میری امید قطع نہ کرنا امام علیہ السلام نے فرمایا ‘‘ یا ام ابی وہب لا تقطع اللہ رجاک یا ام ابی وہب ’’ اے ام ابی وہب خدا تیری امید کو ہر گز قطع نہیں کرے گا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "The Story of Karbala – Part 5 ABDULLAH BIN WAHB AL-KALBI"۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 دسمبر 2010 
  2. ^ ا ب "The second phase of the battle of Karbala" (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 دسمبر 2010 
  3. ^ ا ب Ali Nazari Manfarid۔ The story of Karbala, translated from Persian by Sayid Husain Alamdar 
  4. ^ ا ب Sayed Mohsin Naqvi۔ The tragedy of Karbala 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث {{cite book|last=Al Muqarram | first=Abd al Razzaq | title= Maqtal Al Husayn: Martyrdom Epic of Imam al Husain [as] | chapter= The First Campaign| pages=190–191
  6. Ibn Shahr Ashub۔ Al Manaqib۔ 02۔ صفحہ: 217 
  7. Ibn Al Athir۔ Maqtal al Husayn۔ 02۔ صفحہ: 013 
  8. ^ ا ب Abd al Razzaq Al Muqarram۔ "The Left Wing"۔ Maqtal Al Husayn: Martyrdom Epic of Imam al Husain [as]۔ صفحہ: 194 
  9. Radiyy Al Deen Al Qazwini۔ Tazallum Al Zahra۔ صفحہ: 113 
  10. البلاذري، أنساب الأشراف، الجزء الثالث صفحة 398.

سانچے

ترمیم