شاہ عبد العظیم حسنی بروز جمعرات 4 ربیع الثانی سنہ 173 ہجری کو خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ (آپ کو شاہ عبد العظیم حسنی بھی کہا جاتا ہے)۔ آپ کے والد کا نام عبدللہ بن علی اور والدہ کا نام "ہیفاء" تھا جو اسمٰعیل بن ابراہیم کی نیک اور پاکباز بیٹی تھیں۔ آپ کی کنیت "ابو القاسم" اور "ابوالفتح" ہے۔آپ حسنی سادات کے علما اور علم حدیث کے راویوں میں سے تھے۔ عبد العظیم حسنی کا نسب چار پشتوں میں امامحسن ابن علی سے ملتا ہے۔ تاریخ میں انھیں با تقوا، امین، صادق، دین شناس عالم دین،اصول دین کا قائل اور محدث کے عناوین سے یاد کیا ہے۔ شیخ صدوق نے ان سے منقول احادیث کو جامع اخبار عبد العظیم کے نام سے جمع کیا ہے۔[1][2][3]

{{{نام}}}
ولادت 4 ربیع الثانی 173ھ
وفات جمعہ 15 شوال، 252ھ، المعتزّ باللہ عبّاسی کے دور میں۔
ری، ایران
نسب والد : عبدللہ بن علی
والدہ : ہیفاء بنت اسمٰعیل

اولاد  :
محمد
ام سلمہ

نسب ترمیم

حضرت عبد العظیم حسنیؑ کا نسب چار پشتوں میں سبط الرسول ﷺ، سید شباب اہل الجنہ امام حسن مجتبیٰؑ سے ملتا ہے۔ "عبد العظیم بن عبدللہ بن علی بن حسن بن زید بن علی بن حسن بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم (ع)"

ازواج و اولاد ترمیم

حضرت عبد العظیم حسنیؑ کی زوجہ محترمہ آپ کی چچازاد تھی آپ کو ان کے بطن سے دو بچے بنام محمد اور ام سلمہ عطا ہوئے۔ شیخ عباس قمی آپ کے ایک بیٹے کی خصوصیات لکھتے ہوئی فرماتے ہیں: محمد ایک بزرگ شخصیت کے حامل تھے اور زہد و عبادت کے مقام پر بہت شہرت رکھتے تھے۔[4]

مقام علمی ترمیم

ابو تراب رویانی کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ ابو حماد رازی کہتے تھے کہ میں سامرا میں امام ہادی(ع) کی خدمت میں وارد ہوا اور بعض حلال و حرام کے مسائل کے بارے میں سوال کیا۔ جب واپسی کا ارادہ کیا تو امام(ع) نے فرمایا: چنانچہ اگر دینی امور میں حلال و حرام کی [تشخیص] کے بارے میں تمھارے اوپر کوئی مسئلہ دشوار ہوا تو عبد العظیم بن عبد اللہ حسنی سے سؤال کرو اور انھیں میرا سلام پہنچا دو۔[5]

مروی احادیث ترمیم

کتب حدیثی اور متون روایی میں عبد العظیم حسنی سے منقول احادیث کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔ صاحب بن عباد کہتے ہیں: آپ کثرت سے احادیث نقل کرتے تھے اور امام جواد(ع) اور امام ہادی(ع) سے آپ نے حدیث نقل کی ہے۔[6] آپ سے کچھ کتابیں بھی اس وقت ہمارے اختیار میں ہیں جیسے کتاب "خُطَب امیر المومنین‌"[7] اور کتاب "یوم و لیلہ" جو ظاہرا اعمال پر مشتمل ہے جو ائمہ اطہار(ع) کی احادیث میں مختلف اذکار کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔ اور ہر مکلف دن اور رات میں مستحب یا واجب عمل انجام دے سکتا ہے۔ آپ کی ایک اور کتاب "روایات عبد العظیم حسنی‌" کے نام سے معروف ہے۔[8] بعض بزرگان نے عبد العظیم حسنی سے احادیث نقل کی ہیں منجملہ شیخ صدوق نے آپ سے منقول حدیثوں کے مجموعے کو "جامع اخبار عبد العظیم‌" کے نام سے جمع کیا ہے۔ آپ نے بغیر واسطہ اماموں سے جو احادیث نقل کی ہیں ان میں دو احادیث امام رضا(ع) سے 26 احادیث امام جواد(ع) سے اور 9 احادیث امام ہادی(ع) سے نقل کیا ہے اور ان احادیث کی تعداد جو انھوں نے با واسطہ نقل کی ہیں ان حدیثوں کی تعداد 65 ہیں۔

آپ کے بارے میں لکھی گئی کتابیں ترمیم

حضرت عبد العظیم حسنی(ع) کی شخصیت کی پہچان کے لیے خرداد ماہ سنہ 1392 ش کو آپ کے حرم میں شیخ صدوق ہال میں آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر ایک عظیم شان سیمنار منعقد ہوا جس کے نتیجے میں منتشر ہونے والے آثار کی تعداد 29 تک پہنچتی ہیں۔ جن میں سے بعد کا ذکر کیا جاتا ہے:

  • رسالۃ فی فضل سیدنا عبد العظیم الحسنی المدفون بالری، مؤلف صاحب بن عباد۔
  • أخبار عبد العظیم بن عبد اللہ بن علی بن الحسن بن زید بن الحسن بن علی بن أبی طالب (ع)، مؤلف شیخ صدوق اور یہ کتاب الذریعۃ میں "حیاۃ عبد العظیم الحسنی" کے نام سے مذکور ہے۔
  • جنات النعیم فی أحوال سیدنا الشریف عبد العظیم، عربی، مؤلف ملا اسماعیل کزازی اراکی متوفی سنہ 1236 ہ.
  • روح و ریحان یا جنۃ النعیم والعیش السلیم فی أحوال السید الکریم والمحدث العلیم عبد العظیم الحسنی (علیہ السلام)، فارسی، مؤلف : الحاج الشیخ باقر کجوری مازندرانی متوفی سنہ 1255ہ.
  • التذکرۃ العظیمیۃ، عربی، مؤلف الحاج الشیخ محمد ابراہیم کلباسی متوفی سنہ 1362 ہ.
  • لخصایص العظیمیۃ فی أحوال السید أبی القاسم عبد العظیم بن عبد اللہ الحسنی(ع)، مؤلف شیخ جواد شاہ عبدالعظیمی متوفی سنہ 1355 ه.
  • عبد العظیم الحسنی حیاتہ ومسندہ،
  • مسند حضرت عبد العظیم حسنی، فارسی، مؤلف عزیز اللہ عطاردی قوچانی، متوفی 3 مرداد 1392.
  • آشنائی با حضرت عبد العظیم حسنی(ع) و مصادر شرح حال او، مؤلف رضا استادی.
  • بررسی کلی روایات حضرت عبد العظیم حسنی(ع)، مؤلف محمد کاظم رحمان ستایش.
  • شناخت نامہ حضرت عبد العظیم حسنی وشہر ری، مؤلف سید محمد حسین حکیم و علی أکبر زمانی نژاد.
  • مجموعۃ مقالات کنگرہ حضرت عبد العظیم حسنی(ع).
  • حکمت نامہ حضرت عبد العظیم الحسنی(ع)، فارسی، مؤلف محمد محمدی ری شہری.
  • عبد العظیم الحسنی العالم الفقیہ والمحدّث المؤتمن، سیرتہ ومسندہ، عربی، مؤلف أحمد بن حسین العبیدان.

رحلت ترمیم

منقول ہے کہ آپ دسویں امام حضرت امام علی نقیؑ کے حکم کی بنا پر معتز عباسی کے ظلم و جور سے محفوظ رہنے کے لیے سامرہ سے "رے" کی جانب تشریف لائے اور پھر آپ نے چند سال اسی شہر میں مخفی طور پر زندگی گزارنے کے بعد رحلت پائی۔[9]

مدفن اور زیارت ترمیم

آپ کی رحلت 15 شوال سنہ 252 ہجری کو امام ہادی (ع) کے زمانے میں واقع ہوئی۔ نجاشی نقل کرتے ہیں: شاہ عبد العظیم حسنی (ع) بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں دنیا سے چل بسے۔ شیخ طوسیؒ فرماتے ہیں: شاہ عبد العظیم حسنی (ع) نے شہر رے میں وفات پائی اور ان کی قبر اسی شہر میں واقع ہے۔ محدث نوریؒ کے مطابق کسی شیعہ مؤمن کو خواب میں رسول اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے ان سے فرمایا: کل "عبد الجبار بن عبد الوہاب رازی" کے گھر سیب کے باغ میں میری نسل سے ایک شخص دفن ہوگا۔ اس شخص نے اس باغ کو خریدا اور اسے عبد العظیمؑ اور دیگر شیعوں کی اموات کے نام وقف کر دیا۔[10] اسی وجہ سے حرم عبد العظیم حسنی "مسجد شجرہ" یا "مزار نزدیک درخت" کے نام سے معروف تھا۔[11] شیخ صدوقؒ نے ان کی قبر کی زیارت کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق شہر ری کا ایک شخص امام علی النقی(ع) کی خدمت میں وارد ہوا اور کہا: حضرت سیدالشہداء (ع) کی زیارت سے مشرف ہوکر آیا ہوں تو امامؑ نے فرمایا: قبر شاہ عبد العظیمؑ جو تمھارے نزدیک ہے، کی زیارت کا ثواب قبر حسین بن علیؑ کی زیارت کے ثواب کے برابر ہے۔[12]

حوالہ جات ترمیم

  1. الذریعہ، ج7، ص169. بر آستان کرامت، ص5.
  2. عمدہ الطالب، ص94.
  3. رجال نجاشی، ص248.
  4. جنہ النعیم، ج3، ص390. عمدہ الطالب، ص94.
  5. مستدرک الوسائل، ج17، ص321.
  6. مسند الامام الجواد، ص302.
  7. رجال نجاشی، ص247
  8. خاتمہ مستدرک، ج4، ص404.
  9. الفہرست، ص193.
  10. خاتمہ مستدرک، ج4، 405.
  11. عمدہ الطالب، ص94. بر آستان کرامت، ص12.
  12. ثواب الاعمال، ص99.