عبد اللہ بن مسلم بن عقیل

عبد اللہ بن مسلم بن عقیل کربلا میں شہید ہونے والوں میں سے ایک تھے۔ ان کے والد مسلم ابن عقیل علی بن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابو طالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔

عبد اللہ بن مسلم بن عقیل
معلومات شخصیت
وفات 10 اکتوبر 680ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کربلا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد مسلم بن عقیل   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ رقیہ بنت علی   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں سانحۂ کربلا   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

کربلا کی جنگ میں شہید ہونے والوں میں سے ایک عبد اللہ بن مسلم بن عقیل اے ، ایک تیر ان کے ماتھے پر لگا جس سے ان کا ہاتھ ماتھے سے پیوست ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب انھیں شہید کیا گیا تو ان کی عمر چودہ سال تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ عاشورہ کے دن نبی اکرم (ص) کے اہل خانہ سے شہید ہونے والے پہلے شخص تھے [1]

ناں نسب: عبد الله بن مسلم بن عقيل بن أبو طالب بن عبد المطلب بن هاشم.

والدہ: رقية بنت علي بن أبي طالب، و

أمها الصهباء: أم حبيب بنت عباد بن ربيعة بن يحيى العبد بن علقمة التغلبية. جو کہا جاتا ہے: علي بن أبي طالب نے اليمامہ کی فتح یا عين التمر کی فتح کے وقت خریدی تھی.[2] کہا جاتا ہے کہ يوم عاشوراء سنة 61ھ وقت شہادت آپ کی عمر 26 سال تھی،[3]

ان کے والد مسلم بن عقیل کی عمر کی بنیاد پر ، جن کی عمر وقت شہادت 28 سال بتائی جاتی ہے ، یہ بیان درست نہیں لگتا .[4] اس مضمون کی نظرثانی میں ذکر کیا گیا تھا کہ عمر عبد اللہ بن مسلم 14 سال کی عمر میں شہید ہوئے اور اس کا امکان نہیں ہے۔

ایسے مورخین ہیں جنھوں نے مسلم بن عقیل کے بیٹوں اور بیٹیوں کے بارے میں بات کی ، تاہم ان کی زندگی اور اس کی عمر اور شہادت کے بارے میں بہت سارے اختلافات پائے جاتے ہیں[5]

كربلاء میں

ترمیم

ابن أعثم الكوفي ،نیز الخوارزمی نے دیکھا کہ دشمنوں سے لڑنے کے لیے الطالبيين (آل ابو طالب) سے سب سے پہلے نکلنے والا عبداللّہ بن مسلم تھا۔[6]

ابن شهر آشوب نے لکھا ہے: «عبدللہ بن مسلم نے تین حملوں میں اٹھانوے دشمن کے سپاہیوں کو قتل کیا اور پھر عمرو بن صبیح الصيداوي اور اسد بن مالک نے آپکو شہید کیا۔»۔[6]

البلاذري کہتا ہے: «عمرو بن صبيح الصيداوي نے عبداللّہ بن مسلم بن عقیل تیر مار کر کو گھوڑے سے نیچے گرایا اور لوگوں کو آپ کے قتل کے لیے کہا اور کہا کہ میں نے آل الحسين کے ایک بچے کو تیر مار کر گرایا اور تیر ماتھے پر لگا اور اس تیر سے اس کا ہاتھ اس کے ماتھے کے ساتھ پیوت ہو گیا»۔[7]

السماوي کہتا ہے: آپ عليّ بن الحسين کے بعد شہید ہوئے، ایسا ہی أبو مخنف اور المدايني کہتا ہے اور أبوالفرج اس کے برعکس کہتا ہے»۔[7]

طبری اپنی تاریخ میں حميد بن مسلم الأزدي سے نقل کرتا ہے، ایسے ہی شیخ مفیدد الإرشاد میں لکھتے ہیں:

"رمى عمرو عبد اللہ بسهم وهو مقبل عليہ، فأراد جبهتہ فوضع عبد اللہ يدہ على جبهتہ يتقى بها السهم فسمر السهم يدہ على جبهتہ فأراد تحريكها فلم يستطع ثم انتحى لہ بسهم آخر ففلق قلبہ فوقع صريعاً"

عمرو نے عبد اللہ پر تیر چلایا جو اس کی پیشانی پر لگا تیر سے بچنے کے لیے اس نے ہاتھ پیشانی پر رکھا تو تیر کیل کی طرح ہاتھ سے ہوتا ہوا پیشانی میں پیوست ہو گیا اس کے دوسرا تیر آپ کو لگا اور آپ گر گئے ۔[8]

شیخ صدوق, امام زین العابدین کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسلم هلال بن الحجاج کے بعد ميدان میں آئے اور یہ رجز پڑھا:

أقسمت لا أقتل الا حراً و قد وجدت الموت شيئاً مراً
أكرہ ىن ادعي جبانا فرا ان الجبان من عصي و فرا

[9]

کہا گیا کہ جب عبد اللہ بن مسلم میدان میں آئے تو یہ پڑھ رہے تھے:

الْيوم الْقي مُسْلِماً وَ هُوَ ابي وَ فِتْيةٌ بادوا عَلي دِينِ النَّبِي
لَيسَ كقَوْمٍ عُرِفُوا بالْكذِبِ لكنْ خِيارٌ وَ كرامُ النْسَبِ
من هاشم السادات أهل الحسبِ

[10]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. عبد اللہ بن مسلم بن عقيل آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ aqaed.info (Error: unknown archive URL) موسوعة عاشوراء
  2. السماوي، إبصار العين في أنصار الحسين (ع)، ص...
  3. محمدي الري شهري، موسوعة الإمام الحسين (ع)، ص160 -161.
  4. شهيدي، بعد خمسين سنة دراسة حول قيام الإمام الحسين (ع)، ص122.
  5. أبو الفرج الأصفهاني، مقاتل الطالبيين، ص52.
  6. ^ ا ب مع الركب الحسيني، ج4، ص 367.
  7. ^ ا ب مع الركب الحسيني، ج4، ص 368.
  8. إبصار العين للسماوي نقلاً عن تاريخ الطبري، ج4، ص341؛ المفيد، الإرشاد، جلد2، ص107.
  9. محمدي الري شهري، موسوعة الإمام الحسين (ع) ص162 – 163، نقلاً عن الصدوق، الأمالي، ص225؛ روضة الواعظين، ص207.
  10. مع الركب الحسيني نقلاً عن الخوارزمي، ص367.